کراچی(این این آئی) 15اکتوبر 2023 تک کپاس کی مجموعی قومی پیداوار میں 22فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری ہونے والے کپاس کے پیداواری اعداد وشمار کے مطابق 15اکتوبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں گذشتہ سال کی اس مدت کی نسبت 16فیصد کے اضافے سے مجموعی طور پر روئی کی 59لاکھ 96ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی جننگ فیکٹریوں میں پہنچی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رپورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ مذکورہ عرصے تک سندھ کی جننگ فیکٹریوں میں روئی کی ریکارڈ 34لاکھ 53ہزار گانٹھوں کی آمد ہے جو گذشتہ سال کی سندھ کی کل پیدوار کے مقابلے میں ریکارڈ 84فیصد زائد ہے۔پنجاب میں اسی عرصے کے دوران جننگ فیکٹریوں میں 25لاکھ 43ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے جو پنجاب کی پچھلے سال کی کل پیداوار کے مقابلے میں 16فیصد کم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کہ پنجاب میں سرکاری محکموں کی طرف سے رواں سال کپاس کی کاشت کے اعداد وشمار بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور کچھ عرصہ قبل سفید مکھی کے شدید حملے کے باعث کپاس کی پیداوار توقعات سے کافی کم سامنے آرہی ہے جس سے خدشہ ہے کہ رواں سال کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار نظر ثانی شدہ 1کروڑ 15لاکھ گانٹھوں پر مشتمل مقررہ ہدف کے برعکس 90لاکھ گانٹھ رہے گی۔انہوں نے بتایا کہ سندھ کا ضلع سانگھڑ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والا ضلع بن گیا ہے جہاں 15اکتوبر 2023 تک جننگ فیکٹریوں میں مجموعی طور پر 15لاکھ 50ہزار روئی کی گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے جو سندھ کی کل پیداوار کا 45فیصد جبکہ مجموعی قومی پیداوار کا 26فیصد ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ 15اکتوبر تک مقامی ٹیکسٹائل ملوں کی جانب سے جننگ فیکٹریوں سے 49لاکھ 93ہزار روئی کی گانٹھوں کی خریداری کی گئی ہے جبکہ ایک غیر ملکی فرم نے اسی عرصے کے دوران 2لاکھ 68ہزار گانٹھوں کی خریداری کی ہے اور جننگ فیکٹریوں کے پاس 7لاکھ 35ہزار روئی کی گانٹھیں فروخت کے لیے دستیاب ہیں جو توقع سے زائد ہیں۔توقع سے زائد قابل فروخت روئی کے دستیاب ذخائر کی بڑی وجہ پچھلے ایک ماہ کے دوران ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے ساتھ کئی وعدوں کے باوجود ٹیکسٹائل پراڈکٹس برآمد کنندگان کو 700ارب روپے سے زائد ریفنڈز کی ادائیگی نہ ہونا ہے، تاہم توقع ہے کہ اب روپے کی قدر میں اضافہ شروع ہونے سے روئی اور پھٹی کی قیمتوں میں تیزی کا رجحان متوقع ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ قبل ازیں وزارت تجارت کی جانب سے ٹی سی پی کے ذریعے کاٹن جنرز سے ابتدائی طور پر روئی کی 10لاکھ گانٹھوں کی خریداری کی خوش خبری سنائی گئی تھی تاہم بعد میں اس فیصلے کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا تھا جس سے خدشہ ہے کہ ای سی سی کی منظوری کے بعد فنڈز کے اجرا تک بہت دیر ہوچکی ہوگی جس سے آئندہ سال کپاس کی کاشت میں کمی کا رجحان بھی سامنے آنے کا خدشہ ہے۔