لاہور(این این آئی )فیڈریشن پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) اور یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) نے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو 40 پری بجٹ تجاویز پیش کر دی ہیں جن میں اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی اور ٹیکس وصولیوں میں اضافے، ٹیکس کلیکٹرز کے صوابدیدی اختیارات میں کمی، ٹیکس ریلیف اور ٹیکس بیس میں وسعت پر زور دیا گیا ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر
انجینئر دارو خان اچکزئی نے بدھ کو یہاں اس حوالے سے میڈیا کو بتایا کہ فیڈریشن آف چیمبرز اور یو بی جی نے حکومت سے کہا ہے کہ ٹیکس نظام کو جدید خطوط پر ڈھالاجائے۔ ٹیکس وصولیوں کے نظام میں بہتری، معیشت کی ڈاکیومینٹیشن، صنعتکاری کے ذریعہ روزگار کے نئے مواقع کی فراہمی، ذمہ دارانہ اور مسابقتی ٹیکس نظام کا فروغ، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور مالیاتی ثمرات کی گراس روٹ لیول تک منتقلی ہماری تجاویز کے بنیادی نکات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سیلز ٹیکس کو موجودہ 17 فی صد کی شرح سے سنگل ڈیجٹ تک لائے اور ہر قسم کی مشینری کی درآمد پر عائد تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیاں ختم کی جائیں، غیر رجسٹرڈ افراد پر ٹیکس کو تین فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کیا جائے اور ٹیکس تیار مال پر لگایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قسم کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی صفر یا انتہائی کم کی جائے، خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اضافی کسٹم ڈیوٹی ختم کی جائے تاکہ مقامی صنعت سمگل شدہ سامان کا مقابلہ کرسکے اور کم ٹیرف فری ٹریڈ تجارت کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان تجاویز کو حتمی شکل دینے سے قبل تمام چیمبرز، تجارتی اداروں، ایسوسی ایشنز اور افتخار علی ملک کی سربراہی میں یو بی جی کی 20 رکنی کور کمیٹی کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ موجودہ اقتصادی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے دارو خان اچکزئی نے بڑھتے ہوئے پالیسی ریٹ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور پاکستان روپے کی قدر میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے افتخار علی ملک نے کہا کہ نجی شعبہ اقتصادی بحالی کی کوششوں میں حکومت کی معاونت کرنا چاہتا ہے۔ ان تجاویز پر عملد درآمد سے آئندہ بجٹ کو بزنس فرینڈلی بنانے میں مدد ملے گی جس کے اثرات برآمدات میں
اضافہ کی صورت میں ظاہر ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ٹیکس وصولیوں میں کمی کا سامنا ہے اور اقتصادی ترقی کی شرح 3.7 فیصد سے کم ہونے کا خدشہ ہے جس سے بیروزگاری کی شرح اور غربت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ملک میں ٹیکس دہندگان کی تعداد تقریبا 12 لاکھ ہے جبکہ بجلی کے بلوں پر ٹیکس ادا کرنے والے تاجروں کی تعداد 7 ملین تک پہنچ گئی ہے۔
اس فرق کا خاتمہ سنجیدہ حکمتی کوششوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر تمام اہم پالیسی سازی کے عمل میں اعتماد میں لیا جائے تو کاروباری برادری وزیر اعظم عمران خان کی متحرک قیادت میں معیشت کے استحکام کیلئے کئے جانے والے فیصلوں کی حمایت جاری رکھے گی۔ افتخار ملک نے کہا کہ حکومت اندورن اور بیرون ملک ہوائی سفر کرنے والے افراد کے ڈیٹا کو ممکنہ ٹیکس دہندگان کی شناخت کے لئے
استعمال کرے تو انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ایس ایم ای کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اشیائے صرف کی قیمتوں کی نگرانی کے لئے میکنیزم تشکیل دیا جائے۔ آخر میں افتخار ملک نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی معاہدے کے بارے میں کاروباری برادری کو اعتماد میں لے اور اسے منظرعام پر لایا جائے تاکہ تمام سٹیک ہولڈرز اس کی شرائط سے آگاہ ہوں۔