کراچی (این این آئی) اسٹیٹ بینک نے آئندہ 2 ماہ کے لئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود 5.75 فیصد برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے ہفتہ کو مانیٹری پالیسی سے متعلق میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی بورڈ نے شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد آئندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود 5.75 فیصد پرمستحکم رکھی جائے گی۔
طارق باجوہ نے کہا کہ نجی شعبے کے قرضوں کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، معشیت کو ادائیگیوں کے توازن میں بگاڑ کے خطرات درپیش ہیں، رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 5.5 فیصد رہنے کا امکان ہے جب کہ سروسز سیکٹرمیں رواں مالی سال میں بھی بہتری جاری رہنے کی توقع ہے۔گورنراسٹیٹ بینک نے کہا کہ برآمدات اورترسیلاتِ زرمیں کمی اوردرآمدات میں اضافے کا رجحان ہے جب کہ سی پیک منصوبوں کی وجہ سے معیشت میں بہتری کے امکانات روشن ہیں۔انہوں نے کہا کہ مالی سال 18 کے آغاز میں پاکستانی معیشت کے تین پہلو نمایاں ہیں۔ اول، اوسط عمومی مہنگائی ، گو کہ مالی سال 17 سے زیادہ ہے تاہم گذشتہ اندازے سے کم رہنے کی توقع ہے اور یہ 6.0 فیصد ہدف سے نیچے رہے گی۔ اس کی بڑی وجہ رسد کے سازگار حالات ہیں۔ دوم، ملکی طلب کو مزید بڑھے گی جیسا کہ حقیقی شعبے میں موجودہ نمو، نجی شعبے کو قرضے اور درآمدات سے ظاہر ہے۔ سوم، بیرونی محاذ پر برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلاتِ زر دونوں کی ناقص کارکردگی نے جاری کھاتے کے خسارے کو سخت متاثر کیا ہے جو مالی سال 17 میں 12.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ تاہم فی الحال مالی سال 18 میں مجموعی توازن ادائیگی قابو میں رہنے کی امید ہے۔ اس تجزیے کا انحصار مالی کھاتے میں مسلسل متوقع رقوم کی آمد اور عالمی نمو میں بہتری پرہے۔ پہلے دو پہلو ظاہر کرتے ہیں کہ معیشت توسیعی مرحلے میں ہے جبکہ تیسرا پہلو توازن ادائیگی کے حوالے سے قلیل مدت چیلنجز کو اجاگر کرتا ہے۔
صارف اشاریہ قیمت کے رجحانات پر مزید غور سے ظاہر ہوتا ہے کہ جون 2017 میں عمومی مہنگائی (سال بسال لحاظ سے) کم ہوکر 3.9 فیصد ہوگئی ہے جبکہ قوزی مہنگائی اپریل 2017 سے 5.5 فیصد پر رکی ہوئی ہے۔ موخرالذکر سے بڑھتی ہوئی طلب کی نشاندہی ہوتی ہے۔ تاہم چھ ماہ بعد مہنگائی کی توقعات میں کسی قدر کمی، جس کا اظہار جولائی 2017 کے آئی بی اے ایس بی پی اعتمادِ صارف سروے سے ہوتا ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ توقعات معقول طور پر قابو میں ہیں۔
چنانچہ اسٹیٹ بینک نے مالی سال 18 کے لیے اوسط مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کی پیش گوئی 4.5 سے 5.5 فیصد کی حدود میں رکھی ہے۔ اس پیش گوئی کی وضاحت تیل کی عالمی قیمتوں میں توقع سے کم اضافے، جون 2017 میں مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کے حالیہ رویے، مستحکم انتظامی قیمتوں اور مہنگائی کی کم توقعات سے ہوتی ہے۔
حقیقی شعبے کا جائزہ لیا جائے تو بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی مجموعی (سال بسال)نمو کے مئی 2017 تک کے اعدادوشمار ایک مستحکم اور مثبت رفتار کی عکاسی کرتے ہیں جس میں غذا (خصوصا شکر)، فولاد، سیمنٹ، گاڑیوں، برقی مصنوعات اور دوا سازی کے شعبے آگے آگے نظر آتے ہیں۔ درحقیقت جولائی تا مئی کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی نمو 5.7 فیصد ہے جو گذشتہ سال اسی مدت کے دوران 3.4 فیصد رہی تھی۔
اس کے علاوہ زرعی شعبے کی پیداوار بھی مالی سال 16 سے کہیں بہتر رہی ہے اور اس نے مالی سال 17 میں اپنا ہدف 3.5 فیصد پورا کر لیاہے۔ اس کارکردگی کی وضاحت پیداواری عوامل کی بہتر رسد، جس نے تمام اہم فصلوں کی پیداوار پر مثبت اثر ڈالا، اور گنے کی زیرِ کاشت اراضی میں اضافے سے ہوتی ہے۔ مالی سال 17 میں خدمات کے شعبے کی نمو 6.0 فیصد ہوئی جو مالی سال 16 میں 5.5 فیصد رہی تھی۔ امید ہیکہ یہ مثبت تبدیلیاں مالی سال 18 میں مزید مستحکم ہوں گی۔
جہاں تک بازارِ زر کا تعلق ہے ،بازار کی سیالیت نجی شعبے سے قرضے کی مضبوط طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی تھی۔ درحقیقت مالی سرگرمیوں کے بڑھنے، بینک ڈپازٹس میں خاصے اضافے اور کم شرح سود کے نتیجے میں نجی شعبے کو قرضوں کا بہاو مالی سال 17 میں ایک دہائی کی بلند ترین سطح 748 ارب روپے تک جا پہنچاجبکہ مالی سال 16 میں یہ 446 ارب روپے تھا۔
یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ مالی سال 17 کے دوران معینہ سرمایہ کاری اور جاری سرمائے کے قرضوں میں بالترتیب 258.5 ارب روپے اور 360.5 ارب روپے اضافہ ہوا جبکہ گذشتہ سال ان میں بالترتیب 171.7 ارب روپے اور219.3 ارب روپے اضافہ ہوا تھا۔ صارفی مالکاری کی طلب بھی، خاص طور پر کار اور ذاتی قرضوں کے لیے، مالی سال 17 کے دوران بڑھ گئی۔ حقیقی شعبے میں ہونے والی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے یہ رجحانات مالی سال 18 میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔
بیرونی محاذ پر مالی سال 17 کے دوران جاری حسابات کا خسارہ 12.1 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ مالی سال 17 میں ایک جانب برآمدات اور کارکنان کی ترسیلاتِ زر میں کمی ہوئی تو دوسری طرف درآمدات میں 17.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ سی پیک اور نان سی پیک دونوں کے توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے مشینری کی درآمدات ہیں، جبکہ شعبہ ٹیکسٹائل کے لیے موجودہ برآمدی پیکیج کے تحت پلانٹس کی استعداد میں اضافے کے خاطر کی جانے والی درآمدات نے بھی دباو میں اضافہ کیا۔
تاہم پچھلے چار ماہ کی کی کارکردگی کے پیش نظر برآمدات میں کمی بظاہر اپنی پست ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔جاری حسابات کے خسارے پر زرمبادلہ کے ذخائر اور مالی کھاتے میں فاضل رقم کے ذریعے قابو پایا گیا، جو مالی سال 17 میں 9.6 ارب ڈالر ہوگئی جبکہ گذشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 6.8 ارب ڈالر تھی۔ اس رقم میں سرکاری رقوم کی آمد میں اضافے کے علاوہ سی پیک منصوبوں کے لیے نجی شعبے کی قرض گیری میں اضافے کا اثر بھی شامل ہے۔
ان حالات کی بنا پر زرمبادلہ کے ذخائر مالی سال 17 کے اختتام پر کم ہوکر 16.1 ارب ڈالر ہوگئے جبکہ مالی سال 16 میں 18.1 ارب ڈالر تھے۔ آگے چل کر عالمی پیش گوئیاں مثبت منظرنامہ پیش کررہی ہیں اور نمو اور بین الاقوامی طلب دونوں مالی سال 18 میں بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس تجزیے اور اس کے ہمراہ مثبت ملکی پالیسی اقدامات کی وجہ سے توقع ہے کہ پاکستانی برآمدات کو فائدہ ہوگا۔ دوسری جانب سی پیک سے متعلق سرگرمیوں کے تسلسل اور بہتر ہوتی ہوئی معاشی نمو کے باعث درآمدات میں بھی اضافے کی توقع ہیگو کہ یہ اضافہ سست رفتاری سے ہوگا۔
اگرچہ یہ امر غیر یقینی ہے کہ ترسیلاتِ زر میں بہت جلد مثبت اضافہ ہوگا تاہم بیرونی کھاتے کے استحکام اور وسیع پیمانے پر زرِمبادلہ کے ذخائر کا جمع ہونا مالی سال 18 میں میزانی دو فریقی اور مالی رقوم کی بروقت آمد پر بھی منحصر ہے۔ تفصیلی سوچ بچار کے بعد اور نمو کی مسلسل رفتار کے مضبوط امکان، محدود مہنگائی اور بیرونی محاذ کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو 5.75فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔