لاہور(آئی این پی) چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو ڈاکٹر محمد ارشاد نے کہا ہے کہ بینکوں سے لین دین پر عائد ودہولڈنگ ٹیکس پر نظرثانی کر رہے ہیں،جب سے حکومت برسراقتدار آئی ہے ہر سال ٹیکس ریٹ میں ایک فیصد کمی کی جارہی ہے، فائلرز کی تعداد بھی سات لاکھ سے بڑھ کر چودہ لاکھ تک پہنچ گئی ہے،سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کے ری فنڈز کے لئے جامع پلان بنایا لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے روک دیا گیا،
ڈرائی پورٹس پر کلیئرنس کی وجہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ صوبائی حکومت کی طرف سے لگایا گیا جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں،ایکسپورٹ انڈسٹری کو صفر فی صد کرنے کے باوجود ری فنڈز کا حجم بڑھ رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ معاملات میں گڑبڑ ہے، زیادہ تر مسائل غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے لہٰذا تاجروں سے مستقل رابطہ رکھا جائے گا اور کاروباری مقامات کی اچانک انسپکشن نہیں کی جائے گی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عبدالباسط، سینئر نائب صدر امجد علی جاوا، سابق عہدیداروں اور ایگزیکٹو کمیٹی اراکین سے لاہور چیمبر میں ملاقات کے موقع پر کیا۔ میاں محمد اشرف، شاہد حسن شیخ، عرفان قیصر شیخ، ملک طاہر جاوید، آفتاب احمد وہرہ، شفقت سعید پراچہ، کاشف انور اور ایگزیکٹو کمیٹی اراکین نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد ارشاد نے کہا کہ زیادہ تر مسائل غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے لہذا تاجروں سے مستقل رابطہ رکھا جائے گا تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو، ایف بی آر اور تاجر پارٹنرز ہیں ، کاروباری شعبے کی ترقی محکمہ کے مفاد میں ہے کیونکہ اس سے محاصل بڑھیں گے، کاروباری مقامات کی اچانک انسپکشن نہیں کی جائے گی بلکہ پہلے مطلع کرکے دوستانہ ماحول میں کام کیا جائے گا، کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ تاجروں کو تنگ کرے کیونکہ یہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ جب سے حکومت برسراقتدار آئی ہے ہر سال ٹیکس ریٹ میں ایک فیصد کمی کی جارہی ہے، فائلرز کی تعداد بھی سات لاکھ سے بڑھ کر چودہ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 57ارب روپے کے ریفنڈز دے چکے ہیں اور بقیہ کا مسئلہ بھی جلد حل ہوجائے گا۔ انہوں نے ایک ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی تاکہ ایف بی آر اور تاجروں میں دوستانہ روابط بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر اضافی ٹیکس، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے، پولٹری سیکٹر اور اپیلنٹ ٹریبونل کے قیام کے متعلق تجاویز دے بجٹ میں غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تاجر پینڈنگ آڈٹ کے سلسلے میں ایف بی آر سے تعاون کریں۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری برادری ترقی کرے گی تو ٹیکس وصولیاں بڑھیں گینان فائلر سے بھی ٹیکس وصولی ہو رہی ہے ،نان فائلر سے ٹیکس دہندگا ن کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ریونیو اتھارٹی بننی چاہیے لیکن 18ویں ترمیم کے بعد ٹیکسوں کی وصولیاں صوبائی اختیار بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت زیادہ منافع کمانے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں،نان ٹیکس فائلر کے گرد شکنجہ اس قدر کس دیں گے کہ وہ فائلر بننے پر مجبور ہو جائیں گے،ٹیکس دہندگان کے ساتھ رویہ نرم اور نان فائلز سے سخت کریں گے۔نئے ٹیکس دہندگان کو این ٹی این 24گھنٹوں میں جاری کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کے ری فنڈز کے لئے جامع پلان بنایا لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے روکا گیا،ڈرائی پورٹس پر کلیئرنس کی وجہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ صوبائی حکومت کی طرف سے لگایا گیا جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں،ایکسپورٹ انڈسٹری کو صفر فی صد کرنے کے باوجود ری فنڈز کا حجم بڑھ رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ معاملات میں گڑبڑ ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کاروباری برادری کی تجاویز اور سفارشات کو مدنظر رکھا گیاجبکہ سی پیک بننے کے دوران سیمنٹ اور سریا کے استعمال بڑھ جائے گا،آپریشن ردالفساد کامیابی سے جاری ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کاروباری مقامات پر چھاپے مارنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جن ٹیکس دہندگان کے سابقہ ریٹرنز جمع نہیں ہوئے ان کے ساتھ نرم رویہ رکھا جائے گا،کاروباری برادری ایف بی آر کے مقدمات کے حوالے سے رجوع کرے باہمی افہام و تفہیم سے حل کریں گے۔اس موقع پر لاہور چیمبر کے صدر عبدالباسط نے اپنے خطاب میں کہا کہ ٹیکس فائلرز کی کم ہوتی تعداد اور بڑھتا ریونیو اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر ہی اضافی بوجھ ڈالاجارہا ہے جو سراسرناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولیوں میں انڈسٹری کا حصہ 76فیصد کے قریب ہے جو بہت زیادہ ہے، اس کی وجہ سے صنعتوں میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم اور برآمدات گررہی ہیں۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ تاجر کنسائمنٹ پر ایک ٹیکس سندھ میں جبکہ پنجاب آمد پر دوبارہ وہی ٹیکس ادا کرتے ہیں جو دوہرا ٹیکس ہے۔ پنجاب ریونیواتھارٹی کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ صوبائی طور پر نافذ ہونے والے تمام ٹیکسوں کی وصولی کا اختیار ایک ہی اتھارٹی کو دیں، وفاق بھی ایک نیشنل ریونیو اتھارٹی بناکر تمام ٹیکس سال میں ایک مرتبہ اکٹھے کرے تو تاجروں کو مختلف اداروں کے اہلکاروں سے نجات مل جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس سے متعلق کیسز کے لیے آزاد ٹریبیونل ہونا چاہیے جہاں اپیل فائل کرنے پر 90دن کے اندر فیصلہ ہو، ٹیکس ریکوری تب تک عمل میں نہ لائی جائے جب تک ٹریبیونل کا فیصلہ نہ ہوجائے۔ عبدالباسط نے کہا کہ اے ڈی آر سی کا سسٹم فعال کرکے بڑے بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریفنڈ میں تاخیر کی وجہ سے کاروباری شعبہ شدید مشکلات سے دوچار ہے، ریفنڈ کلیمز دوماہ کے اندر ادا ہونے چاہئیں اور اگر تایر کا معامل ہوتو متعلقہ ادارہ کائیبور ریٹ پر مارک اپ ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ زیروریٹڈ سیکٹرز کے بجلی و گیس بلوں میں منہا کیے گئے سیلز ٹیکس کی ایڈجسٹمنٹ کا سسٹم صحیح طرح کام نہیں کررہا جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زراعت پر ٹیکس نہیں جبکہ اسی کے حصے لائیوسٹاک پر ٹیکس عائد ہے، پولٹری فیڈ کا اس شعبے کی کل لاگت میں حصہ 70فیصد تک ہے جس پر ڈیوٹی عائد ہے، مختلف مراحل میں بجلی کے بلوں اور دیگر مداخل پر سیلز ٹیکس عائد ہے، اسی طرح اس سیکٹر کے امپورٹڈ خام مال پر پینتیس فیصد تک ڈیوٹی عائد ہے جس کی وجہ سے پولٹری سیکٹر شدید پریشانی سے دوچار ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ پولٹری کی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے برگر پیٹی اور نگٹس وغیرہ میں استعمال ہونے والے درآمدی خام مال پر عائد بھاری ڈیوٹی ختم کی جائے، حلال فوڈ کی تین سو ارب ڈالر کی عالمی تجارت میں حصہ حاصل کرنے کے لیے اس سیکٹر کو زیروریٹڈ کردیا جائے، جو خام مال پاکستان میں تیار نہیں ہورہے ان پر بھی ڈیوٹی ختم کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایکریلک کے خام مال پر ساڑھے چھ فیصد ڈیوٹی عائد جبکہ اس کی دوسری اور تیسری سٹیج ٹیکس سے مثتثنیٰ ہے، چونکہ ٹیکسٹائل سیکٹر زیروریٹڈ انڈسٹریز میں شامل ہے لہذا ایکریلک کے خام مال پر ڈیوٹی ختم کی جائے۔ انہوں نے چیئرمین ایف بی آر پر زور دیا کہ وہ ایف بی آر اہلکاروں کی جانب سے صوابدیدی اختیارات کے ناجائز استعمال، چھاپوں اور بینک اکاؤنٹس تک رسائی پر پابندی یقینی بنائیں تاکہ تاجر سکون سے کاروبار کرسکیں۔