اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وطن عزیز کی مٹی سونا اگلنے لگی ۔ ماہرین کے مطابق بس ایک کام کی دیر اور پھر نوکریاں ہی نوکریاں۔ پاکستانیوں کیلئے خوشی کی خبر۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ
ملک میںاعلیٰ کوالٹی کے ماربل اور گرینائیٹ کے 297 ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیںجن سے فائدہ اٹھا کر بھاری زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے جبکہ بے روزگاری میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے ۔گزشتہ سال اس شعبہ کی برامدات تقریباً سات کروڑ ڈالر سے گر کر سوا پانچ کروڑ ڈالر رہ گئی ہیں جسے توجہ دینے سے ایک دہائی کے اندر اندر ڈھائی ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان سے صرف دس فیصد ویلیو ایڈڈ ماربل اور گرینائیٹ وغیرہ برامد کیا جا رہا ہے جبکہ باقی خام مال ہوتا ہے جس کی کم قیمت ملتی ہے جو اس شعبہ کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ملک میں ماربل کے 78 فیصد زخائر صوبہ خیبر پختونخواہ میں واقع ہیں جبکہ ناقی ماندہ ذخائر فاٹا، بلوچستان اور سندھ میں ہیں۔اس وقت ملک بھر میں 1400 آپریشنل کانیں ہیں
جس کی پیداوار نے پاکستان کو دنیا میں چھٹا بڑا پروڈیوسر بنا دیا ہے تاہم سال خوردہ طریقے اپنانے کے سبب کان کنی کے دوران ماربل بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے جسے جدید ساز و سامان استعمال کر کے بچایا جا سکتا ہے۔امن و امان کی صورتحال، توانائی بحران ، قرضوں کی عدم فراہمی ، سپلائی چین کے معاملات اور دیگر مسائل کی وجہ سے
ماربل کی سالانہ پیداوار صرف پچیس لاکھ ٹن یعنی پینتالیس ارب ڈالر کی عالمی منڈی کا دو فیصد ہے جسے بڑھانے کیلئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی بھرپورمداخلت کی ضرورت ہے۔ میاں زاہد حسین کہا کہ مقامی صنعت کی کمزوری کی وجہ سے چین اور اٹلی بڑی مقدار میں ماربل اور گرینائیٹ درامد کرتے ہیں اور اس میں ویلیو ایڈ کر کے اسے
پاکستان سمیت کئی ممالک کو برامد کر دیتے ہیں۔سعودی عرب نے جو نئے شہر بسانے کا منصوبہ بنایا ہے ان کیلئے اربوں ڈالر کا ماربل برامد کیا جا سکتا ہے جبکہ امریکہ اور اٹلی سے جدید مشینری درامد کرنے کیلئے رقم کی ادائیگی کے بجائے ماربل کی صورت میں ادائیگی کی جا سکتی ہے جس سے اس صنعت کی ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔