برلن(نیوزڈیسک)گاڑیاں بنانے والی معروف جرمن کمپنی ووکس ویگن نے اعتراف کیا ہے کہ گاڑیوں میں مضر صحت گیس کے اخراج جانچنے کے طریقہ کار میں ان کی کمپنی کی بددیانتی سے ایک کروڑ دس لاکھ گاڑیاں عالمی سطح پر متاثر ہوئی ہیںاورکمپنی نے اپنی غلطی کے معاوضے کے لیے 6.5 ارب یورو کا انتظام کیا ہے۔ووکس ویگن کے امریکی کاروبار کے سربراہ نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی کمپنی نے گاڑیوں میں مضر صحت گیس کے اخراج کی سطح جانچنے کے طریقہ کار میں ایک سافٹ ویئر کی مدد سے بددیانتی کی ہے۔امریکہ میں ووکس ویگن کمپنی کے سربراہ مائیکل ہارن نے کہاکہ ہماری کمپنی نے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (ای پی اے) اور امریکی ریاست کیلیفورنیا کے فضائی آلودگی سے تحفظ کے ادارے کو دھوکے میں رکھا۔ یہی نہیں بلکہ آپ سب کو بھی دھوکے میں رکھا ہے۔ میرے جرمن الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ہم بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں ووکس ویگن کمپنی کے سربراہ مائیکل ہارن نے تسلیم کیا ہے کہ کمپنی نے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (ای پی اے) اور امریکی ریاست کیلیفورنیا کے فضائی آلودگی سے تحفظ کے ادارے کو دھوکے میں رکھا۔گذشتہ جمعے کوفضائی آلودگی کا ضابطہ اخلاق بنانے والے امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ووکس ویگن کی ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں میں مضر صحت گیسوں کے اخراج کی سطح جانچ میں سامنے آنے والی سطح سے زیادہ ہے۔ دیگر حکومتوں کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کریں گی۔ جنوبی کوریا کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ 2014 اور 2015 میں بننے والی والکس ویگن کی پانچ ہزار کے قریب گاڑیوں کا معائنہ کرے گے جن میں جیٹا، گولف اور آڈی اے تھری شامل ہیں۔ گاڑیوں میں نقائص سامنے آنے کی صورت میں جرمنی میں بننے والی ڈیزل سے چلنے والی تمام گاڑیوں کا معائنہ کیا جائے گا۔گیسوں کے اخراج کی سطح کا ضابطہ بنانے اور نگرانی کرنے والے اداروں کو ڈیزل سے چلنے والی کئی
مزید پڑھئے: سرگودھا ایئر بیس،حساس اداروںکے اہلکار،بم ڈسپوزل سکواڈ پہنچ گیا،3گرفتار
گاڑیوں میں سافٹ ویئر کی مدد سے دھوکے میں رکھا جا رہا تھا۔ای پی اے کی جانب سے یہ بات سامنے آنے کے بعد پیر کے روز ووکس ویگن کے حصص کی قیمت 20 فیصد گر گئی، جبکہ جمعے کے روز ووکس ویگن سے کہا گیا تھا کہ وہ امریکہ میں اپنی پانچ لاکھ گاڑیاں واپس بلا لے۔گاڑیاں واپس بلانے کے اخراجات کے ساتھ جرمانے کی مد میں ادائیگی کے باعث ووکس ویگن کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو گا۔ جبکہ ووکس ویگن کے ایگزیکٹیوز پر فوجداری مقدمات بھی قائم ہو سکتے ہیں۔ ا ±دھر واشنگٹن میں وائٹ ہاو ¿س نے بھی اس خبر پر کہا ہے کہ وہ ’بہت فکرمند‘ ہیں۔ ووکس ویگن کے سابقہ ملازم اور اب بین الاقوامی سرمایہ کاری کے ادارے ایور کور آئی ایس آئی کے آٹو موٹِو تحقیق کے ادارے کے سربراہ آرنٹ ایلنگ ہورسٹ نے بی بی سی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاملہ جرمنی کی صنعتی ساکھ پر برا اثر ڈال رہا ہے۔ عالمی سطح پر صارفین کسی جرمن کمپنی سے ایسی بات کی امید نہیں کرتے۔ خاص طور پرگاڑیوں کی صنعت سے وابستہ ایسی کمپنی جو یورپ میں گاڑیوں کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ووکس ویگن کے چیف ایگزیکٹیو مارٹن ونٹر کارن نے اس سافٹ ویئر پر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے جو ووکس ویگن کی گاڑیوں میں ا ±س وقت گیس کا اخراج کم کر دیتی ہے جب گیس کے اخراج کی سطح کی جانچ کی جا رہی ہوتی ہے نسبتاً ا ±س وقت کے جب اسے عمومی طور پر استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ای پی اے کا کہنا ہےکہ فضائی آلودگی سے متعلق وفاق کی جانب سے متعین کیے جانے قوانین پر پورا نہ اترنے والی ہر گاڑی پر ساڑھے 37 ہزار ڈالر جرمانہ ہوگا۔ہ 2008 سے اب تک الزامات کی زد میں آنے والی چار لاکھ 82 ہزار گاڑیاں فروخت ہو چکی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جرمانہ 18 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے۔یہ ایک بہت بڑی رقم ہے، ایک ایسی کمپنی کے لیے بھی جس نے حال ہی میں رواں سال کی ابتدائی ششماہی میں دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں فروخت کرنے والی ٹویوٹا کمپنی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ رواں سال کی پہلی ششماہی میں گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹویوٹا سب سے زیادہ گاڑیاں فروخت کرنے والی کمپنی بن گئی تھی۔ حصص بازار میں اس کے مالیت تقریباً 75 ارب ڈالر ہے۔