اسلام آباد(نیوز ڈیسک) چین کی 3 کمپنیوں نے شاہراہ قراقرم کا حویلیاں سے تھاکوٹ 120 کلومیٹر حصہ بنانے کیلیے نظرثانی شدہ پی سی ون کی نسبت زیادہ قیمت کی بولیاں جمع کرائی ہیں۔این ایچ اے کے نظرثانی شدہ پی سی ون کے مطابق یہ سڑک84 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کی جانا ہے جبکہ پہلے پی سی ون میں یہ لاگت 90ارب روپے تھی۔ یہ سڑک چین پاکستان اقتصادی راہداری کاحصہ ہے جوچین نے تعمیرکرنی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ تینوں چینی کمپنیوں نے نظرثانی شدہ پی سی ون کی نسبت کئی گنا زیادہ مہنگی بولی دی ہے۔ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چائنہ اسٹیٹ انجینئرنگ نے214 ارب روپے،چائنہ کارپوریشن نے 225 ارب روپے اورچائنہ کمیونیکیشن نے 192ارب روپے کی بولی دی ہے۔چین کے ساتھ معاہدے کے تحت چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کا زیادہ حصہ چینی کمپنیوں نے پورا کرنا ہے جس کے لیے چین کا ایگزم بینک رقم فراہم کرے گا۔ انجینئرنگ،پروکیورمنٹ اورکنسٹرکشن (ای پی سی)اسکیم کے تحت منصوبے چینی قرضے سے مکمل ہونگے،حکومت پاکستان چینی ایگزم بینک کو90فیصد ادائیگی امریکی ڈالرمیں جبکہ 10فیصد مقامی کرنسی میں کرے گی۔ذرائع کے مطابق اگر این ایچ اے نے چینی کمپنیوں کی پیشکش قبول کرلی توحکومت پاکستان کونظرثانی شدہ پی سی ون کے تخمنیہ لاگت سے بہت زیادہ رقم واپس کرنا ہوگی۔ان ذرائع کاموقف ہے کہ وزارت مواصلات اور نہ این ایچ اے نے اب تک یہ وضاحت نہیں کی کہ چینی کمپینوں کی مہنگی پیشکشوں کوکیوں قبول کیا گیااورکسی پاکستانی کمپنی کوبولی میں حصہ لینے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی جو ممکنہ طور پرتخمیہ لاگت سے بھی کم ہوسکتی تھی۔ وزارت مواصلات کے ذرائع نے بتایا کہ ابھی صورتحال واضح نہیں ہے۔وزارت کے سیکریٹری شاہداشرف تارڑجواین ایچ اے کے سربراہ بھی ہیں اس منصوبے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرینگے۔ذرائع کے مطابق اگراین ایچ اے کاکل وقتی چیئرمین ہوتا تومعاملات اس قدرخراب نہ ہوتے کیونکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کواولین ترجیح ملنے کے بعد سیکریٹری مواصلات پرکام کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔دوسری طرف ماہرین کاخیال ہے کہ اگرچینی کمپنیوں کوزیادہ نرخوں پر اس طرح کے اہم منصوبے دیے گئے تواس کی قیمت ملک کوہی اداکرنا ہوگی اور پاکستان پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔حکومت کواعلیٰ سطح پرمعاملے کاجائزہ لینا ہوگا اورقومی خزانے کونقصان سے بچانے کے لیے اقدامات کرناہوں گے۔