کراچی(نیوز ڈیسک) سانحہ بلدیہ فیکٹری کو 3برس بیت گئے، دہشتگردی میں زندہ جل جانے والے 260افراد کے ورثاءکو انصاف ابھی تک نہ مل سکا، حکام کی عدم دلچسپی کے باعث کیس سرد خانے کی نذر ہوا،ملزمان کو ضمانت مل گئی اور سرکاری وکیل نے استفعیٰ دے دیا۔گیارہ ستمبر 2012 کو پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین سانحہ ہوا۔ بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ ٹاو¿ن میں واقع گارمنٹس فیکٹری کو آگ لگا دی گئی تھی جس کے باعث 260 فیکٹری مزدور زندہ جل گئے عوامی دباو¿ پرمقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 شامل کی گئی لیکن فیکٹری مالکان نے ضمانت حاصل کرلی۔جسٹس ریٹائرڈزاہد قربان علوی پر مشتمل عدالتی ٹریبونل نے واقعہ کو حادثہ قراردے دیاتھا لیکن بعد میں سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ملزم رضوان قریشی کے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ریکارڈ کرائے گئے بیان نے ہلچل مچا دی۔ملزم نے انکشاف کیا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگوائی گئی تھی۔ ملزم کے بیان پر ایک اور جے آئی ٹی تشکیل پائی۔ فروری 2015 میں سندھ ہائیکورٹ نے ماتحت عدالت کو ایک سال میں مقدمہ نمٹانے کا حکم دیا لیکن مقدمے کی کارروائی آگے کیسے بڑھتی، دباو¿ کے زیر اثر آ کر پبلک پراسیکیوٹر شازیہ ہنجرہ نے 7 ماہ قبل استعفیٰ دے دیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ متعدد نوٹسز کے باوجود حکومت نیا پراسیکیوٹرتعینات کرنے کو تیارنہیں جبکہ پہلے حکومتی اداروں کی جانب سے ہی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ حادثہ نہیں دہشتگردی ہے۔ 3 سال گزر گئے مگر بیگناہ فیکٹری مزدوروں کے لواحقین آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں