برلن(این این آئی)ماہرین صحت نے بچوں میں چیزوں کو جلد سیکھنے، یاد کرنے، مختلف خلاف طبعیت چیزوں کو جلد تسلیم کرنے جیسی عادات پر تحقیق کی ہے اور اس کا راز ڈھونڈ نکالا ہے کہ کیسے بچے بالغ افراد کی نسبت جلدی سیکھتے اور سمجھتے ہیں۔جرمن ماہر اعصاب کے مطابق بچوں کا حافظہ بڑوں کے مقابل تیز ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ گاماامائنوبیوٹرک ایسڈ یا گابانامی کیمیائی اجزا ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بچوں کے ذہن میں موجود گابا کیمیکل ان کے اکتسابی عمل کے دوران بہت سرگرم ہوجاتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ بڑے پیمانے پر معلومات و تجربات کو جذب کرسکتاہے۔اس حوالے سے جرمن ماہرین اعصاب نے ایک تجربہ کیا جس میں انہوں نے جدید ٹیکنالوجی فنکشنل ایم آر ایس (ایف ایم آر ایس) کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ جب بچوں کو نئی معلومات موصول ہوتی ہیں تو ان میں اس دوران دماغی قشر (وڑول کارٹیکس) کی سرگرمی بڑوں کے مقابل زیادہ ہوتی ہے یا کم۔اس تجربے کیلئے 8 سے 11 برس کے 55 بچوں جبکہ 18 سے 35 برس کے 56 نوجوانوں کا انتخاب کرکیمختلف اوقات میں ان کے ذہن کا جائزہ لیا گیا۔ماہرین کے مطابق گابا ایک اہم کیمیائی جزو ہے جو نئی اشیا اور معلومات سیکھنے میں اور معلومات کو طویل عرصے تک حافظے میں محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے،اس کے بعد سائنسدانوں کی اسی ٹیم نے بچوں اور بڑوں میں رویہ جاتی اکتساب کی مشقیں بھی کرائیں جس سے معلوم ہوا کہ نئی معلومات سیکھنے کے بعد بچے تھکے نہیں اور اگلے دس منٹ بعد وہ سیکھنے اور پڑھنے کے عمل میں دوبارہ نئے عزم کے ساتھ موجود تھے۔یہی وجہ ہے کہ بچے بہت تیزی سے سیکھتے ہیں اور معلومات کی بڑی مقدار اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔