اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ خان نے اعظم سواتی کے الزامات مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی اے نے اعظم سواتی کے خلاف عدلیہ کی تضحیک اورپاک فوج کے سربراہ کی مداخلت کے ٹویٹ پر درست مقدمہ درج کیا گیا ، تمام قانونی تقاضے پورے کر کے انہیں گرفتار کیاگیا، دوران جسمانی ریمانڈ ایف آئی اے کے پاس ہی رہے ،
حراست کے دوران عزت و احترام کا خیال رکھا گیا، عمران خان نے لاہور سے جو شروع کیا ہے وہ لانگ مارچ ہے ؟ ہمارے پاس رپورٹس ہیں کہ دہشت گرد لانگ مارچ کی سرگرمی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ، عمران خان نے اگر عوام کے ساتھ کی گئی کمٹمنٹ پوری کی تو تو پھر تو کچھ نہیں ہوگا لیکن ریڈ زون ہماری ریڈ لائن ہے۔ وہ جمعہ کو پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اعظم سواتی نے ایک پریس کانفرنس کی اور الزام لگایا کہ ایف آئی اے نے گرفتار کر کے کسی اور کے حوالے کیا ، کسی اور نے تشدد کیا۔ کسی اور کی بات تو بعد میں آتی ہے، اگر ایف آئی اے مقدمہ درج کرے اور گرفتاری کے لئے چھاپہ مارے اور کسی کے حوالے کرتا تو پھر وزارت داخلہ ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی انکوائری کی تھی کیونکہ مجھے کوئی درخواست یا شکایت موصول نہیں ہوئی تھی ، آج جب اس معاملے کا نیا رخ آیا تو ایف آئی اے چھاپہ مارنے والی ٹیم کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کو بلا کو تفصیل سے پوچھا ، ان کے ساتھ سائبر کرائم شعبے کے ڈائریکٹر وقار الدین سید کو بھی طلب کیا۔ انہوں نے کہا کہ عمرانی فتنے کے کرداروں نے اس ملک کو فتنے اور فساد سے دوچار کرنے، ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلنے اور قوم کو گمراہ کرنے کے لئے ملک دشمن ایجنڈا اپنا لیا ہے اس کے لئے مختلف رنگ اور حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں سے پی ٹی آئی نے اداروں کے سربراہان کو ہدف بنایا ہوا ہے، ایسی گفتگو یا آئین اور قانون اور اخلاقیات کے ذمرے میں بھی نہیں آتی وہ گفتگو کی جارہی ہے ان کو نہ اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ ہی اداروں کی عزت کا خیال ہے۔ انہوں نے کہا کہ یک طرفہ جھوٹ تسلسل سے بولا جاتا ہے تو بعض صورتوں میں سچ کی صورت اختیار کر لیتا ہے
اس لئے لازمی ہوگیا ہے کہ جہاں اور جب جھوٹ بولا جائے اسے دبا کے سچ کو سامنے لانا چاہیے ، سچ کو جھوٹ کے مقابلے میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ لوگوں میں اتنا شعور ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ میں پہچان کر لے ،اگر جھوٹ ہی جھوٹ سامنے ہو تو بعض او قات لوگوں کی نظر دھوکہ کھا جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب فتنہ گروں کے جھوٹ کے مقابلے میں سچ پیش کر کے انھیں گھر تک چھوڑ کر آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم اور حمزہ شبہاز کی تصویر لگا کر آرمی چیف کو مبارک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یہ ٹھگ ایسے ہی بری ہوتے رہے تو کرپشن حلال ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر عدالتیں اتوار کو کھلے ،ضمانتیں ہوں اور ریلیف دیں تو پھر عین انصاف ہے اور اگر وہ ہی عدالتیں ہمیں جھوٹے کیسز میں بری کرے تو عدالتیں ٹھیک نہیں رہتی ، یہ ان کی سوچ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی نے اپنے ٹویٹ میں عدلیہ کی تضحیک اورپاک فوج کو مداخلت کا الزام لگایا جس پر ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا اور چھاپہ مار کر گرفتار کیا اور عدالت میں پیش کیا گیا ،عدالت نے فورا حکم دیا کہ ان کا میڈیکل کیا جائے، پمز ہسپتال کے 4 سینئر ڈاکٹروں نے اعظم سواتی کا گرفتاری کے 4 گھنٹے کے بعد میڈیکل کیا ، جسمانی اور میڈیکل فٹ قرار دیا اس کے بعد اعظم سواتی ایف آئی اے کے پاس ریمانڈ پر رہے۔
15 اور 16 اکتوبر کو بلترتیب دوسرا اور تیسرا میڈیکل ہوا ،بطور ممبر سینٹ انھیں احترام دیا لیکن جب وہ ضمانت پر باہر آتے ہیں تو انہوں نے عمرانی فتنے کی حکمت عملی کے تحت حساس ادارے کے 2 افسران کے نام لیا کہ انہوں نے مجھ پر تشدد کیا۔انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی نے کسی فورم پر اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتی کی درخواست نہیں دی اور نہ ہی عدالت میں کوئی پٹیشن کی ہے ۔وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ الزام لگایا جاتا ہے کہ تشدد ہوا ہے
لیکن کسی عدالت میں اس کی درخواست نہیں دی جاتی اور نہ ہی تشدد کی میڈیکل رپورٹ ان کے پاس موجود ہے ، صرف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، ان گیڈر بھبھکیوں سے تحقیقات یا تفتیش کا عمل نہیں رکنے والا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بھی پی ٹی آئی والے اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہیں ،یہ ان کی گٹھیا حکمت عملی ہے ، پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کا ہر سطح پر جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹر اعظم سواتی جب مجھے دوران کیس ملتے تو کہتے تھے کہ بہت ذیادتی ہورہی ہے ،
میں نے کہا کہ میرے لئے کسی فورم پر آواز بلند کریں تو اس پر وہ خاموش ہوجاتے ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ اعظم سواتی کے الزامات مسترد کرتا ہوں، ایف آئی اے نے درست مقدمہ درج کیا ،تمام قانونی تقاضے پورے کر کے گرفتار کیا ، دوران جسمانی ریمانڈ ایف آئی اے کے پاس ہی رہے ، حراست کے دوران عزت و احترام کا خیال رکھا گیا، گھر کا کھانا اور ادویات مہیا کی جاتیں رہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ میں نے تو عمران خان کے ساتھ کچھ نہیں کیا پتہ نہیں کس دن مجھ پر کیا الزام لگا دے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے لاہور سے جو شروع کیا ہے وہ لانگ مارچ ہے ؟ عمران خان خود اپنے الفاظ میں پھنس گیا ہے ،کسی کو ڈرانا ،دھمکانا چاہا ، پہلے مارچ میں بھی اپنے لئے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوا ، جسطرح کا لانگ مارچ شروع کیا ہے اور جو عوام کے ساتھ کمٹمنٹ کی ہے کہ ہم عدالت کے مقرر کردہ جگہوں پر جائیں گے، ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے ان جگہوں پر ہی بیٹھ کر احتجاج کریں گے اس کے مطابق ہی ہم ورکنگ کر رہے ہیں، اگر عوام کے ساتھ کی گئی کمٹمنٹ درست ہوتی ہے تو پھر تو کچھ نہیں ہوگا لیکن ریڈ زون ہماری ریڈ لائن ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا یہ فرض ہے کہ اداروں او راداروں میں کام کرنے والے لوگوں کا دفاع کرے ، ہم نے پھر پور کوشش کی ہے کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر فیصلہ یہ ہی ہوا ہے کہ اداروں کا دفاع حکومت کریگی لیکن جس پر الزام لگایا جائے گا وہ خودسچ بتائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اینکر غلام حسین کی گرفتاری کا علم نہیں ہے ،اس معاملے کو دیکھوں گا اگر گرفتار ی ہوئی تو قانون کے مطابق ان کے ساتھ سلوک ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ارشد شریف واقعہ میں خرم احمد اور وقار احمد کے عمل دخل کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے،
یہ سوال ہے کہ ارشد شریف واقعہ کی اطلاع فیملی کی بجائے میڈیا ہائوس کے سربراہ کو کیوں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کمیٹی کینیا پہنچ رہی ہے، جلد اپنی تحقیقات کا آغاز کریگی۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ کل ڈی جی آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس میں عام لوگوں کو تو تسلی ہوچکی ہے، عمران خان کی مجھے یا ڈی جی آئی ایس آئی کی دھمکیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بلکل واضح ہوچکا ہے کہ ایسے کوئی حالات نہیں تھے کہ ارشد شریف پاکستان چھوڑ کر باہر جاتے ، یہ بات وہ خود بھی جانتے تھے اسی لئے وہ پاکستان سے باہر جانے کے لئے تیار نہیں تھے ، ان کو خوفزدہ کرنے کے لئے فرمائشی تھرڑ الرٹ کے پی کے حکومت سے جاری کرایا گیا۔ دوبئی سے نکالے جانا اور لازمی کینیا میں بھیجنا اہمیت کی حامل بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس رپورٹس ہیں کہ دہشت گرد لانگ مارچ کی سرگرمی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے محمد ایاز نے بتایا کہ تمام ضابطے پور ے کرتے ہوئے وارنٹ لیکر پولیس ،مجسٹریٹ اور لیڈی پولیس کے ہمراہ اعظم سواتی کو گرفتار کیا۔ دوران گرفتاری تین مرتبہ اعظم سواتی کا میڈیکل ہوا۔ 2بجکر 45 منٹ پر ان کے گھر گئے اور دروازے پر تعارف کرایا ، انتظار کے بعد ہمیں گھر کے اندر جانے دیا۔ ایک کمرے میں اعظم سواتی چھپے ہوئے تھے جنھیں باقاعدہ گرفتار کر کے 5بجکر 10 منٹ پر تھانے پہنچے ، 8 بجکر 45 پر انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دوران حراست اعظم سواتی کی کسی غیر متعلقہ شخص سے ملاقات تک نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی گھر کے اندر نہیں باہر چھپے ہوئے تھے ، انھیں باہر سے ہی گرفتار کیا ،پوتے ور پوتیوں کے سامنے لیجا کر تشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔