اسلام آباد (نیوز ڈ یسک)تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان کے رہنما اور سابق گورنر سندھ زبیر عمر نے کہا ہے کہ ایک طرف سابق وزیراعظم عمران خان کو ’’بے بنیاد مقدمے‘‘ میں ڈھائی سال سے جیل میں رکھا گیا ہے، جبکہ دوسری جانب آئی ایم ایف کی رپورٹ خود بتا رہی ہے کہ 5300 ارب روپے کی کرپشن ہوئی، مگر اس رقم کے ذمہ دار افراد کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے زبیر عمر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف بیرون ملک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان پر کرپشن کا ایک بھی کیس ثابت نہیں، لیکن آئی ایم ایف نے جو اعدادوشمار دیئے ہیں وہ حکومتی بیانیے کے بالکل برعکس ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ بتایا جائے یہ اربوں روپے کس نے لوٹے، کون سے افراد سے ریکوری ہوئی اور کس کو سزا ملی؟ ’’ہمیں پوری فہرست چاہیے، قوم کو حقیقت جاننے کا حق ہے۔‘‘انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ تین ماہ تک چھپائے رکھی, اور جب عالمی ادارے نے دباؤ بڑھایا تو اسے منظر عام پر لایا گیا۔ سابق گورنر کا کہنا تھا کہ اڑھائی سال قبل ایس آئی ایف سی بنایا گیا تھا کہ ملک میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک ارب ڈالر بھی نہیں آسکا۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف نے رپورٹ میں واضح لکھا کہ شفافیت نہ ہونے کے باعث سرمایہ کاری تو دور کی بات، ٹھیکے بھی پسندیدہ افراد کو دیئے جاتے ہیں اور ایسی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں جن سے امیر طبقہ مزید فائدہ اٹھاتا ہے جبکہ غریب متاثر ہوتا ہے۔زبیر عمر نے کہا کہ عمران خان پر جھوٹے الزامات لگا کر انہیں جیل میں رکھا ہوا ہے، مگر 5300 ارب روپے کی کرپشن پر مکمل خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔
’’اگر 5300 ارب کی ریکوری ہوئی ہے تو نیب بتائے یہ رقم کس سے وصول کی گئی؟ قومی خزانے میں گئی تو پھر اس کا حساب کہاں ہے؟‘‘انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ’’دھاندلی شدہ الیکشن‘‘ کے نتیجے میں آئی، اس کے پاس قانون سازی کا کوئی آئینی مینڈیٹ نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو جھوٹے کیسز میں قید رکھ کر حکومت چلائی جارہی ہے۔غیر آئینی 27ویں ترمیم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے معیشت مزید کمزور ہوگی کیونکہ جب نظام میں شفافیت نہ ہو تو سرمایہ کار اعتماد کھو دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت خود جج تعینات کرے گی تو کسی تنازع کی صورت میں سرمایہ کار کس کے پاس جائے گا؟آخر میں انہوں نے پھر مطالبہ کیا کہ 5300 ارب روپے کی کرپشن کرنے والوں کی مکمل فہرست سامنے لائی جائے۔’’قوم کو بتائیں کہ یہ پیسہ لوٹنے والے کون ہیں، خزانے کا نقصان کس نے کیا، اور ان کے خلاف کارروائی کب ہوگی؟ کیا ایسے لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جانا چاہیے؟‘‘















































