دادو/راولپنڈی (این این آئی)آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کا اثر پوری دنیا پر آ رہا ہے، ہمارے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، دنیا کو باور کروا رہے ہیں ری نیو ایبل کی طرف جایا جائے، پاکستان میں چیک ڈیم سمیت مزید بڑے ڈیم بنانا پڑیں گے، ہمیں ہر چیز کے لیے عالمی کمیونٹی کو نہیں دیکھنا چاہیے،
انٹرنیشنل کمیونٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے،اس وقت پاکستان سے لوگ امداد دے رہے ہیں، پنجاب، خیبرپختونخوا سے کافی امداد آ رہی ہے، سندھ اور اربن سندھ کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں ہمارے بھائی بہت مشکل ہیں، ان کیلئے آگے آئیں اور امداد دیں،آئندہ ہفتے وزیراعظم سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا اجلاس بلایا ہے،،سیلاب سے بچنے کیلئے پلاننگ کریں گے۔ہفتہ کو آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اندرون سندھ کے ضلع دادو کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریلیف اور میڈیکل کیمپوں میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ وقت گزارا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فارمیشن کو دادو اور آس پاس کے علاقوں کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو 5000 خیمے فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ سربراہ پا ک فوج نے امدادی سرگرمیوں میں مصروف فوجیوں سے بھی ملاقات کی۔بعد ازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دادو، خیرپور ناتھن شاہ، جوہی، مہر اور منچھر جھیل کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی فضائی نگرانی بھی کی۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہاکہ میں پاکستان کے تمام سیلاب زدہ علاقوں میں گیا ہوں، اوتھل، نصیر آباد، راجن پور، سوات، لاڑکانہ، شہداد کوٹ، خیر پور سمیت دیگر علاقوں کا دورہ کیا۔ میرے خیال میں ملک میں سب سے زیادہ تباہی دادو میں آئی ہے،
منچھر جھیل اور حمل جھیل کے درمیان 100 کلو میٹر کا فاصلہ ہے تاہم قدرتی آفت کے باعث دونوں جھیلوں کا پانی آپس میں مل چکا ہے۔ سربراہ پاک فوج نے کہاکہ باقی علاقوں میں ریسکیو کا کام ختم ہو چکا ہے، جہاں لوگوں کو سانپ کاٹنے سمیت دیگر مشکلات پیش آئیں وہاں ہم ہیلی کاپٹر بھیجتے ہیں اور ریسکیو کرتے ہیں۔آرمی چیف نے کہاکہ دادو میں ریسیکیو کا کام اور امدادی کارروائیاں بھی جاری ہیں،
مجھے بتایاگیا کہ دادو کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہے لیکن یہاں اب ایک ملین آبادی پہنچ چکی ہے، اردگرد پانی کا بہت زیادہ زور ہے، ڈی سی نے بہت اچھا کام کیا ہے اور پاک فوج کے ساتھ مل کر بند باندھا ہے، شہر کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سب سے پہلے ہم لوگوں کو ریسکیو کر رہے ہیں، اس وقت پاکستان سے لوگ امداد دے رہے ہیں، پنجاب، خیبرپختونخوا سے کافی امداد آ رہی ہے،
سندھ اور اربن سندھ کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں ہمارے بھائی بہت مشکل ہیں، ان کیلئے آگے آئیں اور امداد دیں، ہمیں ہر چیز کے لیے عالمی کمیونٹی کو نہیں دیکھنا چاہیے، انٹرنیشنل کمیونٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام، یو ایس ایڈ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے لوگ بھی یہاں پہنچ چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکا، یورپ، چائنہ، مشرق وسطی ممالک متحرک ہو گئے ہیں اور وہاں سے طیارے امدادی سامان لیکر آ رہے ہیں،
یہ ممالک صرف ایک حد تک مدد کر سکتے ہیں تاہم ہمارے ملک میں لوگوں کی ذمہ داری ہے، آگے آئیں اور لوگوں کی مدد کریں۔ انہوں نے کہاکہ سیلاب کے بعد بحالی کا عمل بڑا چیلنج ہے، ہم اس کیلئے ہمیشہ تیار رہے ہیں، ہم ہمیشہ دریاؤں کے ذریعے سیلاب کیلئے تیار رہے ہیں جس علاقے میں اگر پچاس ملی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہے اگر وہاں 1700 ملی میٹر بارش ہفتے میں ہو جائے تو اس کے لیے ہماری تیاری نہیں تھی،
دریائے سندھ کے ویسٹ سائیڈ نے بہت زیادہ تباہی مچائی ہے۔سربراہ پاک فوج نے کہاکہ حکومت پاکستان نے 2017ء میں عالمی کمپنی سے سیلاب سے متعلق تحقیق کروائی تھی اسے ہم دوبارہ ری وزٹ کریں گے، انڈس دریا کے ویسٹ حصے کے ساتھ ہم نے کیسے نمٹنا ہے، اس کے لیے ہمیں چیک ڈیمز بنانا پڑیں گے، ڈرین سسٹم بھی بنائیں گے، اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے خود آرمی انجینئرنگ کو ایک ٹاسک دیا ہے اس پر انہوں نے تحقیق بھی مکمل کر لی ہے،
اگلے ہفتے ہم وزیراعظم شہباز شریف سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بریف کریں گے، اس کے لیے عالمی ایکسپرٹ کی بھی مدد لیں گے۔سربراہ پاک فوج نے کہاکہ لانگ ٹرم میں جو لوگ بے گھرہوئے ہیں، ان کے لیے بھی پلاننگ کی جا رہی ہے، میرے پاس آئیڈیا ہے،ایک پری فیب گاؤں بناتے ہیں اس کی خوبی یہ ہے گاؤں چند دنوں میں بن جاتے ہیں، اس کیلئے 50 سے 100 گھروں کا ایک گاؤں بنائیں گے، اس کیلئے جگہ سلیکٹ کی جائے گی،
یہ جگہ بلوچستان یا سندھ میں ہو سکتی ہے،ان گھروں میں دوبیڈ روم، ایک باتھ، ایک کچن پر مشتمل گھر ہو گا، جس کا تخمینہ پانچ لاکھ روپے ہے،ان گھروں کی زندگی بھی 50 سال سے 100 سال تک ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کی آفت کے بعد بیماریاں بھی بڑی عفریت بن کر سامنے آ رہی ہیں، ڈینگی، ملیریا، سمیت دیگر بیماریاں دادو میں سامنے آ رہی ہیں، سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی یہ مسئلہ سامنے آ رہا ہے، اس کے لیے اضافی بٹالین میڈیکل منتقل کر رہے ہیں،
جو سول اداروں کے ساتھ مل کر لوگوں کو ریلیف فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب چیلنجز آتے ہیں تو وہاں پر اپروچیونٹی بھی سامنے آتی ہیں، ان آفت سے ہم کافی کچھ سیکھا ہے، آئندہ حکومت کے ساتھ مل کر اچھی پلاننگ کریں گے۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہاکہ مجھے بتایا گیا ہے اس وقت کوٹری بیراج سے پانچ لاکھ کا ریلا گزر رہا ہے، جس وقت دریائے سندھ میں پانی کم ہو جائے گا تو منچھر جھیل میں بھی پانی کم ہونا شروع ہو جائے گا، ابھی بھی کچھ علاقوں میں 8 سے 10 فٹ پانی موجود ہے،
اور آہستہ آہستہ نیچے آنا شروع ہو جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ خیر پور اور سکھر کے علاقے میں کچھ اور تدبیریں کرنی پڑیں گی، وہاں پر ڈی واٹرنگ اور پمپ لگانا پڑیں گے، انڈس میں اگر پانی کم ہوتا ہے تو منچھر جھیل میں بھی کمی آنا شروع ہو جائے گی، مستقبل میں بند توڑ کر پانی کا رخ اس طرف کر دیں گے، اس کے لیے ہمیں کافی پلاننگ کرنا پڑے گی۔آرمی چیف نے کہاکہ مستقبل کے لیے چھوٹے ڈیم، واٹر سسٹم بنانا پڑے گا، تب جا کر ہی اس مسئلہ کا حل نکلے گا،
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری، یو ایس ایڈ اور امریکی کانگریس کے لوگ بھی پاکستان آئے ہیں، انہیں بتایا کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے تاہم دنیا میں ہم سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، 2010ء میں بھی بڑا سیلاب آیا تھا، 2022ء میں ایک مرتبہ پھر فلڈ آیا، عالمی دنیا کے اثرات ہمیں بھگتنا پڑ رہے ہیں، ہمارے گلیشیئرز بھی پگھل رہے ہیں، پاکستان اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، پوری دنیا کو ملکر آگے آنا ہو گا اور مصیبت سے نمٹنا کے لیے کام کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہاکہ اس کے لیے دنیا میں ابھی سے آوازیں اٹھانا شروع کر دی گئی ہیں اگر اب کچھ نہ کیا گیا تو تمام دنیا کے لیے مسائل پیدا ہوں گے، اس سال پاکستان میں گرمی کے بعد ایک ساتھ ہی ماحول تبدیل ہو گیا، انگلینڈ میں کچھ مہینے پہلے گیا تھا وہاں پر بھی سخت گرمی تھی، وہاں پر بھی خشک سالی ہوئی ہے، گلوبل وارمنگ کا اثر پوری دنیا پر آ رہا ہے، سیاچن میں ہمارے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، اس کے لیے ہم دنیا کو باور کروا رہے ہیں کہ ری نیو ایبل کی طرف جایا جائے، ہائیڈرو کاربن کا استعمال کم سے کم کیا جائے، تیل اور کوئلہ سے بجلی بنانے کا عمل بھی کم کرنا ہو گا، پاکستان میں مزید بڑے ڈیم بنانا پڑیں گے، کس جگہ پر بنانا پڑیں گے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے کہاکہ سوات سمیت دیگر جگہوں پر ڈیم بنانا پڑیں گے، تاکہ سیلاب سے بچنے کے علاوہ ہم بجلی بھی وافر بنا سکیں، گلوبل وارننگ کو بھی کنٹرول کر سکیں۔