اسلام آباد(آن لائن)چیف جسٹس آف پاکستان نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے موقع پر ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے،عدالت کیس میں بہت احتیاط سے کام لے گی،اعلی عدلیہ اپنے فیصلوں میں
نیب قانون پر تنقید کرتی رہی ہے،90 دن کا ریمانڈ کہیں نہیں ہوتا،فوجداری کیسز میں 14 دن سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں ہوتا،کرپشن پر سزا کی شرح جاپان میں ۹۹ فیصد ہے، یہ غیر معمولی حالات ہیں، عدالت غیر معمولی حالات میں کیس سن کر مزے نہیں لے رہی،ایک بڑی سیاسی جماعت پارلیمنٹ کے باہر ہے،ہم تو ان سے بھی کہہ رہے ہیں پارلیمنٹ میں واپس آئیں،پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کیجانب سے ایسی قانون سازی کا تاثر ہے جو اپنے فائدے کیلئے کی جا رہی ہے،سپریم کورٹ قانون سازی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی،ہم محض آئین کے محافظ ہیں،عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے گی،صرف بنیادی حقوق کیخلاف ترامیم ہونے کے نکتے کا جائزہ لینگے،ترامیم احتساب کے عمل سے مذاق ہوئیں تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی،اکثر ترامیم میں ملزمان کو رعایتیں بھی دی گئی ہیں،پلی بارگین کرنے والے کے شواہد کو ہی ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے،فوجداری نظام میں گرفتاری کی ممانعت نہیں ہے،گرفتاری جرم کی نوعیت کے حساب سے ہوتی ہے،سابقہ حکومتی جماعت کے 150 ارکان اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے بیٹھے ہیں،پی ٹی آئی کو کہا تھا اسمبلی جا کر اپنا کردار ادا کریں،آدھے ارکان نے اسمبلی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے،اسمبلی میں موجود ارکان اپنے ذاتی فائدے کیلئے قانون سازی کر رہے ہیں،
عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی،تحقیقات میں مداخلت پر ازخودنوٹس لیا تھا،ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ لیکر صرف دیکھ رہے ہیں کہ کیسز چلتے ہیں یا نہیں،آئین کے تحت چلنے والے تمام اداروں کو مکمل سپورٹ کرینگے۔کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے التواء کی درخواست کرتے ہوئے موقف
اپنایا کہ کورونا ہو جانے کے باعث جواب عدالت میں جمع نہیں کروا سکا،عدالت تفصیلی جواب جمع کرانے کیلئے مہلت دے۔مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ اعلی عدلیہ نیب عدالت کی سزائیں برقرار نہیں رکھتی،ملزمان بری ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے داغ نہیں دھلتے،یورپ میں استقاط حمل کا مسئلہ عدالتوں میں نہیں پارلیمان میں حل ہوا،عدلیہ کا کردار ایمپائر کا ہوتا ہے،امریکی سپریم کورٹ ہمیشہ منتخب
حکومت کیساتھ کھڑی ہوتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ امریکی سپریم کورٹ کی مثال اس حوالے سے درست نہیں لگتی،اگر اسمبلی نیب قانون ہی ختم کردے تو عوام اس کیخلاف کس فورم پر جائے گی؟عدالت کے باہر سیاسی موسم تبدیل ہوتا رہتا ہے،کیا سیاسی موسم کا عدالت کے اندر اثر ہونا چاہیے؟کیا عدالت میں صرف آئین اور قانون کا موسم نہیں رہنا چاہیے؟۔بعد ازاں عدالت عظمٰی نے عمران خان کے وکیل کی التواء کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت یکم ستمبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔