اسلام آباد (این این آئی)سابق وزیر اعظم عمران خان کو برطرف کیے جانے کے چند ماہ کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے خیبر پختونخوا میں گرین گروتھ انیشیٹوکے تحت شروع کیے گئے بلین ٹری سونامی فارسٹیشن پروجیکٹ میں مبینہ بدعنوانی کی 6 انکوائریاں اور 4 تحقیقات کا آغاز کردیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے موسمیاتی
تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے شروع کیا گیا پروگرام پارلیمنٹ کے اعلیٰ احتسابی ادارے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں اٹھائے جانے اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کو اس کے آڈٹ کے لیے لکھے گئے حالیہ خط کے بعد جانچ پڑتال کی زد میں آیا ہے۔7 جولائی کو نیب نے پی اے سی کو بتایا تھا کہ وہ شجرکاری سے متعلق عائد کیے گئے بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے، ان جاری تحقیقات میں جنگلات کے لیے حاصل کی گئی زمین، انکلوڑر، فارم فارسٹری (پودوں کی مفت تقسیم) بیج، پولی تھین بیگز اور اسی طرح کے دیگر آلات کی خریداری کے معاملات شامل ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق نیب کا ڈائریکٹوریٹ جنرل خیبرپختونخوا ان الزامات کی چھان بین کے لیے6 انکوائریاں اور 4 تحقیقات کر رہا ہے۔قومی احتساب آرڈیننس (این اے او)1999کے مطابق شکایت موصول ہونے کے بعد نیب معاملے کیحقائق کی تصدیق کرتا ہے۔
پھر معاملے کی انکوائری کرتا ہے اور پھر اس انکوائری کو بعد میں تحقیقات کے مرحلے میں لے جایا جاتا ہے۔معاملے کی تحقیقات کے مرحلے کے بعد چیئرمین نیب کی منظوری سے انسداد بدعنوانی کا نگران ادارہ احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرتا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے نیب کو مالم جبہ کیس اور بینک آف خیبر اسکینڈل کی تحقیقات کو دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کے ان مقدمات کی بحالی کا بھی امکان ہے جو یا تو تعطل کا شکار تھے یا ختم کردیئے گئے تھے۔
پی اے سی نے بیورو سے سپریم کورٹ میں بی آر ٹی کیس کی پیروی کرنے کو بھی کہا ہے۔گزشتہ سال جولائی میں نیب نے 275 ایکڑ مالم جبہ اسکیئنگ چیئر لفٹ ریزورٹ کیس میں اس وقت کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کو کلین چٹ دے دی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ان افراد کے خلاف انکوائری کو مجاز اتھارٹی نے 270 ایکڑ رقبے کی جنگلاتی زمین کو لیز کرنے، لیز کی مدت 15 سال سے 33 سال تک بڑھانے اور بولی کے عمل میں بے ضابطگیوں، قوانین کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تحقیقات کا اختیار دیا تھا۔ .نیب بینک آف خیبر میں غیر قانونی تقرریوں کی بھی تحقیقات کر رہا تھا۔
تاہم یہ انکوائری 2 سال قبل بند کر دی گئی تھی۔پارلیمانی احتساب کے ادارے نے نیب کو پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تحقیقات کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی کہا۔رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی منصوبے کی انکوائری کا اختیار 20 جولائی 2018 کو پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) کے 5 فروری 2018 کے حکم پر دیا گیا تھا۔
پشار ہائی کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ‘تاخیر، ٹھیکہ دینے کا عمل، فزیبلٹی اور پشاور اسسٹین ایبل بس ریپڈ ٹرانزٹ کوریڈور پروجیکٹ (بی آر ٹی) کے منصوبے سے متعلق تمام معاملات مشکوک اور غیر شفاف ہیں، اس لیے نیب حکام کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ان معاملات کی مناسب تحقیقات و انکوائری کریں اور آئندہ سماعت سے قبل اپنی رپورٹ پیش کریں تاہم، پشاور ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف کے پی حکومت کو سپریم کورٹ سے ریلیف مل گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے 31 اگست 2018 کو اپنے حکم نامے میں پشاور ہائی کورٹ کے حکم کی کارروائی کو معطل کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو عبوری ریلیف دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔پی ٹی آئی قیادت کے خلاف مقدمات بحال کرنے کا فیصلہ طیبہ گل کی جانب سے خفیہ طور پر نیب کے سابق چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی ویڈیو ریکارڈ کرنے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔طیبہ گل نے پی اے سی کو بتایا تھا کہ وزیراعظم آفس کے سابق افسران بشمول وزیراعظم کے قریبی ساتھی اعظم خان اور طاہر اے۔ خان نے مقدمات ختم کرنے کے لیے چیئرمین نیب پر دباؤ ڈالنے کے لیے ویڈیو کا ‘غلط استعمال’ کیا۔