لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) لاہورہائیکورٹ کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب کالعدم ہونے کی صورت میں پنجاب میں نیا سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب کے نئے انتخابات کی صورت میں قائد ایوان کے عہدے کے لئے مسلم لیگ ن کے میاں حمزہ شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ہی دوبارہ مقابلہ ہوگا اور موجودہ ایوان میں اکثریت حاصل
کرنے والا ہی وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوگا تاہم نئے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے ایوان کے نصف یعنی 186ارکان کا ووٹ حاصل کرنا ہوگا ۔روزنامہ جنگ میں مقصود اعوان کی شائع خبر کے مطابق پنجاب اسمبلی کی سولہ اپریل کی صورتحال بحال ہونے کی صورت میں ڈپٹی سپیکر ہی دوبارہ ضمنی انتخاب کرائے گا۔ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں چیئرمین آف پینل کے ذریعے نئے قائد ایوان کا انتخاب ہوگا ۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے پچیس منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کررکھا ہے اور ان حلقوں میں 17جولائی کو 20 ڈی سیٹ ہونے والے ممبران پنجاب اسمبلی کے حلقوں میں ضمنی انتخابات ہورہے ہیں جن کی انتخابی مہم عروج پر ہے۔عدالت عالیہ کے فیصلے کی روشنی میں خواتین کی تین اور اقلیتوں کی دو مخصوص نشستوں کا ابھی تک صوبائی الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی ترجیحی فہرست کے مطابق نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا ۔
عدالت عالیہ کے پانچ مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن کے اجرا کے حکم پر عمل درآمد کرنے سے اپوزیشن اتحاد کی پانچ نشستوں میں اضافہ ہوجائے گا ، اس طرح بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات کے بعد منتخب ارکان ایوان کا حصہ بنیں گے اس طرح 371کے ایوان میں اس وقت 351ارکان موجود ہیں جو آئندہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حصہ لیں گے۔موجودہ ایوان میں حکمران اتحاد کو 177اراکین صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے، ان میںمسلم لیگ نون کے165 چار آزاد، ایک راحق پارٹی اور 7 پیپلزپارٹی کے شامل ہیں۔