اسلام آباد (این این آئی)مسلم لیگ نون کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور پی ٹی آئی کے سابقہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے سیاسی جماعتون کے درمیان چارٹر اآف اکانومی کرنے کی حمایت کی ہے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہاہے کہ پیٹرولیم پر سبسڈی ختم کرنا مشکل فیصلہ کر لیا ہے۔ جون میں اآئی ایم ایف سے معاہدے طے پاجائے گا۔
نٹ شیل اور پاکستان کارپوریٹ گروپ کے زیر اہتمام منعقدہ نیشنل اکانومی ڈائیلاگ سے موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سابقہ وزیر خزانہ شوکت ترین کے علاوہ اوورسیز چیمبر اف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر غیاث خان، پاکستان بزنس کونسل کے محمد اورنگزیب، پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے چیف ایگزیکٹو فرخ ایچ خان، انفرا ضامن کی چیف ایگزیکٹو ماحین رحمان اور ڈاکٹر امجد وحید نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس آن لائن مذاکرے سے اپنے کلیدی خطاب میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل معیشت کی موجودہ صورتحال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی معیشت ایک مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے،وفاقی حکومت کا خسارہ 5600 ارب تک پہنچ گیا ہے، سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہد ہوا اس میں 25 ارب کے پرائمری خسارے کا ہدف تھا اس سال ملکی مجموعی خسارہ 5000 ارب روپے خسارہ یہ جی پی کا ساڑھے سات فیصد تھا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کا آئندہ سال قرض کے 21 ارب ڈالر قرض کی مد میں واپس کرنا ہے ہے،زرمبادلہ ذخائر بڑھانے اور قرض لوٹانے کے لئے 37 ارب ڈالر درکار ہیں،چین سعودی عرب اور قرض دینے والے عالمی اداروں نے کہا ہے کہ پہلے پاکستان آئی ایم ایف سے معملات کو طے کرے۔ پٹرول پر سبسڈی کے حوالے سے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ایک مہینے میں 140 ارب روپے کی سبسڈی دیتے رہتے تو ملک دیوالیہ ہوجاتا،
ملکی سویلین انتظامیہ چلانے سے تین گنا زائد سبسڈی کسی طور جاری نہیں رکھی جاسکتی تھی،جو لوگ 40 ہزار روپے سے کم کماتے ہین انہیں پیٹرولیم پر سبسڈی دی جائے گی۔ معیشت میں موجود مسائل کا ذکر کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کی نجکاری ہونا چاہیے ،پاکستان میں توانائی کے شعبے میں 20 فیصد نقصانات ہیں جو عالمی معیار سے دگنے ہیں،اگر یہ شعبہ نجی ہاتھوں میں ہوتا بورڈ پوچھتا کہ یہ نقصان کیوں
ہورہا ہے ایک دن میں معاملات ٹھیک ہوتے ،آئندہ بجٹ کے حوالے سے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آیء ایم ایف سے جون مین معاہدہ متوقع ہے،آئی ایم ایف ٹیکس ریٹ کو بڑھانے کا مطالبہ کررہا ہے مگر کوشش ہے کہ ٹیکس ریٹ نہ بڑھے اور کوشش ہوگی کہ اس کو کم کیا جائے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ روپے کی شرح مبادلہ اور شرح سود کا تعین اسٹیٹ بینک کرتا ہے،ان کی اپنی پالیسی ہے اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔ مفتاح اسماعیل نے کہا
کہ آئندہ سال حکومت کی کوشش ہے کہ وہ انفلیشن کو قابو کرے کیونکہ یہ غریب آدمی پر بد ترین ٹیکس ہے۔ ملک میں معیشت کے حوالے سے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ وہ 20 سال کے چارٹرآف اکانومی پر اتفاق کرتے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ اور پی ٹی ائی کے سینیٹر شوکت ترین کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتون کے درمیان چارٹر آف اکانومی ہونا چاہیئے مگر اس وقت سیاسی ماحول ساز گار نہیں انتخابات کے بعد اگر پی ٹی آئی حکومت میں آئی یا اپوزیشن
میں تواس پر کام کیا جائے گا۔ شوکت ترین کا کہنا تھاکہ پاکستان کو سب سے پہلے اپنی بچتوں کو فروغ دینا ہوگااور اس کے لئے حکومت کو رعایت دینا ہوگی،بچتوں کے زریعے ہی ملک میں سرمایہ کاری کیلئے فنڈز دستیاب ہوسکیں گے، پاکستان کو درآمدات اور برآمدات کے درمیان موجود فرق کو کم کرنا ہوگا۔ اور مالیاتی شعبہ منافع بخش تو ہے۔ مگر مستحکم نہیں ہے، پاکستان میں علاقائی بینکوں کو لائسنس دینا ہونگے پاکستان کو چین اور کوریا کو
دعوت دینا چاہیئے کہ وہ برآمدی شعبے کی صنعتیں لگائین۔ آئی ٹی کے شعبے کو ترقی دینا ہوگی گزشتہ سال آئی ٹی 47 فیصد بڑھی ہے۔ میں نے بطور وزیر خزانہ انہیں معاونت دی۔آئی ٹی شعبے نے تربیت کے لئے 3 ارب روپے مانگے میں نے 6 ارب روپے دیئے۔ پاکستان کو اسپیشل ٹیکنالوجی زون بنانا ہونگے پاکستان میں پھیلی ہوئی اور چھوٹی صنعتوں کو یکجا کرنا اور انہیں ضم کرنا ہوگا اور پھر ان صنعتوں میں غیر ملکی سرمایہ کارلانا ہونگے۔
اوورسیز انوسٹرز کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر غیاث خان نے کہا کہ اس وقت جو بحران ہے وہ بہت زیادہ گہرا اور مختلف ہے۔ کورونا وباء کے بعد معیشت کھل رہی یے اور دنیا بھر میں انفلیشن کے مسائل ہیں سپلائی چین کے مسائل ہیں۔ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے کموڈیٹی قیمتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ مقامی بحران اس میں اضافہ کررہا ہے۔ پاکستان کو اپنا پہلا رجحان فوڈ سکیورٹی پر توجہ دینا ہوگا۔سال 2030 تک غذائی طلب ہوجائے
گی۔ دنیا میں 800 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہے۔ روس اور یوکرین دنیا کی گندم کا 20 فیصد کا فراہم کرتے ہیں۔پاکستان 2020 سے گندم کا درآمد کنندہ ہے۔ اگر ہم پاکستان میں گندم کی پیداوار میں اضافہ نہ کرسکے تو بحران ہوگا۔ اور اگر گندم کی پیداوار بڑھائی تو اس پاکستان برآمد کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔ غیاث خان نے تجویز دی کہ پاکستان اپنی توانائی کی پالیسی کو تبدیل کرے۔ اس وقت پاکستان میں 70 فیصد مقامی گیس اور 30 فیصد درآمدی
ہے جبکہ یہ عمل الٹا ہوکر سال 2030 میں درآمدی 70 فیصد اور مقامی گیس فیصد رہ جائے گی جوکہ پاکستان کی معیشت کے لئے واضع رسک ہے۔ ہمیں مقامی وسائل پر توجہ دینا ہوگی تھر پاکستان میں مقامی توانائی وسائل کی اہم مثال ہے اس وقت فی کلو واٹ بجلی ایل این جی 27 روپے پر ہے درامدی کوئلے پر 35 روپے مقامی کوئلے پر بجلی 13 روپے ہوگیپاکستان اسٹاک ایکس چینج کے چیف ایگزیکٹو فرخ ایچ خان کا کہنا تھاکہ سی پیک میں پاکستان
کی کیپٹل مارکیٹ اہم کردار ادا کرسکتی ہے، پہلا مرحلہ حکومت نے انفرااسٹرکچر بنانے کا تھا۔ دوسرے مرحلے میں نجی شعبے کو یہ انفرااسٹرکچر استعمال کرنے کا موقع دے تاکہ اس کی لاگت نکل سے۔ انہوں نے کہا کہ کیپٹل مارکیٹ سی پیک اور دیگر شعبوں کے لئے ڈیٹ اور ایکویٹی دونوں میں سرمایہ کاری فراہم کرسکتاہے۔ ڈاکٹر امجد وحید نے کہا کہ پاکستان اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی اچھی نہیں ہے جبکہ ریئل اسٹیٹ میں اچھی کارکردگی دیکھی
گئی۔ کیونکہ ریئل اسٹیٹ میں ایمنسٹی اسکیم متعارف ہوئی جبکہ اسٹاک ایکس چینج میں سرمایہ کاری کے لئے دستاویزی ثبوتوں کی شرط بڑھا دی گئی۔ ملک میں دستاویزی شعبے کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے مذید کہا کہ سیاسی استحکام اور تشدد میں کمی سے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھ سکتی ہے پاکستان پر بہت زیادہ قرضے ہیں اس کو کم کرنا ہے سرکاری کاروباری اداروں کو قربیا 6 ارب ڈالر سالانہ دیا جاتا ہے۔ جتنا رقم معاونت سرکاری
کاروباری اداروں کو دی جاتی یے اتنا آئی ایم ایف کا پورا پروگرام ہے انفرا ضامن کی چیف ایگزیکٹو ماحین رحمان نے کہا کہ ہمیں اپنی آئندہ دس سال کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔پاکستان کی ہرصنعت کسی نہ کسی سبسڈی پر چل رہی ہے۔ پاکستان کو مقامی سپلائی چین کو بحال کرنا ہوگا پاکستان کے پاس جو لیبر فورس سے اس سے مختلف لیبر فورس مستقبل کے لئے درکار نہیں یے ملک کے 18 سے 25 سال کی یوتھ کو نئے شعبوں میں تربیت دینا ہوگی۔