ہفتہ‬‮ ، 13 ستمبر‬‮ 2025 

تھیلیسیمیا کا شکار دس بچے ایڈز میں مبتلا

datetime 10  دسمبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں
فائل فوٹو رائٹرز

اسلام آباد: تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار پانچ سے 16 سال کی عمر کے دس بچوں میں مبینہ طور پر انفیکشن زدہ خون کی منتقلی سے ان کے ایڈز میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

اس بات کی تصدیق بدھ کو پاکستان تھیلیسیمیا فیڈریشن کی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر یاسمین راشد نے کی۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ تمام بچوں کے ایچ آئی وی ٹیسٹ کیے گئے جس کی مثبت رپورٹ آئی تاہم میں کسی فردِ واحد پر الزام عائد نہیں کرنا چاہتی کیونکہ پاکستان میں بے شمار لوگوں کو غیر محفوظ طریقے سے خون منتقل کیا جاتا ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق چھ بچوں کا تعلق جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی سے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پمز ہستپال نے متاثرہ بچوں کو مفت علاج اور بون میرو ٹرانس پلانٹ کی فراہمی کی پیشکش کی ہے۔

تھیلیسیمیا خون کی موروثی بیماری ہے اور یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد میں منتقل ہوتی ہے، اس مرض میں جسم میں ہوموگلوبن کی پیداوار بند ہوجاتی ہے۔

اس مرض کا شکار مریض کو مستقل سرخ خون کے خلیات کی ضرورت پڑتی ہے۔

ڈاکٹر یاسمین نے ڈان کو مزید بتایا کہ میں یہ خبر سن کر دنگ رہ گئی، میں نے دس سال قبل خون کی منتقلی کے ایکٹ کے نفاذ کے لیے کوششیں کی تھیں لیکن ان قوانین کا نفاذ نہ ہو سکا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ناقص خون منتقل کیا جاتا ہے اور وہ ایڈز، ہیپاٹائٹس سمیت متعدد خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ہر قسم کے خون کی منتقلی سے قبل اس کا باقاعدہ صحیح معائنہ ہونا چاہیے۔

اس موقع پر انہوں نے تسلیم کیا کہ تھیلیسیمیا کا شکار لوگ اس طرح کے واقعات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اکثر مختلف جگہوں سے خون کی منتقلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

پمز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے مطالبہ کیا کہ معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ نجی کلینک اور دیگر ادارے موت بانٹ رہے ہیں اور انہیں فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے، مجھے خطرہ ہے کہ اس سے مزید لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔

تھلیسیمیا سے آگاہی اور خاتمے کے لیے پاکستان میں قائم تنظیم(ٹی اے پی پی) کی صدر عائشہ عابد بھی اس واقعے پر بہت افسردہ نظر آئیں۔

انہوں نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ تھیلیسمیا کے مریضوں کے لیے خون زندگی ہے، انہیں ایک ماہ میں ایک سے تین مرتبہ خون کی منتقلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، ان کے والدین کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ منتقل کیا جانے والا خون ٹیسٹ شدہ ہے۔

نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے ڈی جی صحت کو اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی ہے اور واقعے کے ذمے داران کا پتہ لگانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

اس موقع پر انہوں نے وعدہ کیا کہ غیر رجسٹرڈ شدہ بلڈ بینک اور غیر ٹیسٹ شدہ خون بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر


حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…