اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے 3 ارب ڈالرز کے پڑے ہوئے ڈپازٹس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ پاکستان نے ان سے اس کی پختگی (میچورٹی) بڑھانے کی درخواست کی ہے۔پاکستان آئی ایم ایف کے مشن چیف سے اپنا جائزہ مشن پاکستان بھیجنے یا مذاکرات کرنے کے لیے اگلے ہفتے ورچوئل میٹنگز کرنے اور
2022-23 کے اگلے بجٹ کے اعلان سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح پر معاہدہ کرنے کی نئی کوششیں کرنے کی درخواست بھی کرنے جا رہا ہے۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی خبر کے مطابق اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے شیڈول کو حتمی شکل دینے کے لیے ہم واشنگٹن ڈی سی کے ساتھ وقت کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب آئی ایم ایف کے مشن چیف کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔تاہم آزاد ماہرین اقتصادیات نے تجویز کیا کہ توانائی کی سبسڈی واپس کیے بغیر آئی ایم ایف اپنا مشن پاکستان نہیں بھیجے گا۔حکومت کو پی او ایل اور بجلی کی قیمتوں میں پیشگی شرائط کے طور پر اضافہ کرنا پڑے گا جو 6 ارب ڈالرز کی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت زیر التواء ساتویں جائزے کی تکمیل پر آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔ایک اور اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ سعودی عرب کا 8 ارب ڈالرز تک کا اضافی پیکج بھی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے منسلک ہے۔تعطل کے شکار آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بغیر حکومت کے لیے غیر ملکی کرنسی کے کم ہوتے ذخائر کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
وزیر خزانہ کے قریبی ساتھی نے بتایا کہ ہماری حکومت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی کو روکنے کے لیے جون 2022 تک ملک کو 5 سے 7 ارب ڈالرز کی آمد کی ضرورت ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس طرح کی آمد کا انتظام نہ کیا جا سکا تو معاشی پریشانیاں کئی گنا بڑھ سکتی ہیں۔شہباز شریف کی قیادت میں حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے اسٹیٹ بینک میں پڑے 3 ارب ڈالرز کے ڈپازٹس کی واپسی کے لیے مملکت سعودی عرب سے متعلق افواہوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’انہوں نے نہیں کہا۔ ہم نے ان سے میچورٹی بڑھانے کو کہا ہے۔یہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی حفاظت کے لیے ایک احتیاطی اقدام ہے‘