لاہور( این این آئی )سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ ہمارے نظام میں فیصلے بہت دیر سے ہوتے ہیں، عوام کوشکایت ہے فیصلے برسوں بعد ہوتے ہیں،جتنے قانون بنتے ہیں وہ انگریزی زبان میں بنتے ہیں، سمجھ نہیں آتا وہی قانون اردو میں کیوں شائع نہیں ہوسکتا۔مجھے کہا گیا کہ آپ بہت بہادر ہیں، مجھے کسی اور نے بھی یہی کہا تھا، میں نے کہا جج کو بہادر نہیں ڈرپوک ہونا چاہیے،
جج کو اللہ تعالی اور آئین کا ڈر ہونا چاہیے،مقدمہ بازی کی بڑی وجہ قانون سے ناواقفیت ہے، شہری پاکستان میں قوانین معلوم کرنا چاہے تو اسے ایک جگہ اکھٹا نہیں ملتا، ایک زمانے میں ہر برس کے وفاقی قوانین شائع کیے جاتے تھے، اب یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے، گزٹ آف پاکستان تو اب بھی شائع ہوتے ہیں مگر ان میں قانون الگ کرنے اور موضوعات میں مرتب کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے پنجاب بار کونسل اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن میں منعقدہ تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر وکلاء تنظیموں کے عہدیداران اور وکلاء کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ میںآج تقریب میں جی آر او سے پیدل ہائیکورٹ آیا ہوں ،لاہور کو پاکستان کا دل کہتے ہیں مگر آج مجھے بڑی تکلیف ہوئی ،جی آر او سے آتے ہوئے راستے میں دیکھا بلاوجہ راستوں کوبند کیا ہوا ہے ،راستے میں گٹر کھلے ہوئے تھے ،راستے میں ہر جگہ پانی کھڑا ہوا تھا ،راستے میں ایک صاحب کا گیٹ تھا ادھر سے لے کر پتہ نہیں کتنا بڑا گیٹ تھا ،میں ان صاحب کا نام نہیں لو ںگا کیونکہ میں سیاسی نہیں ہوں ،یہ سب کیا ہے باہر تو ایسا نہیں ہوتا ،وہاں تو ائیر پورٹ پر وی آئی پیز کے اعلانات بھی نہیں کیے جاتے ،یہاں پتہ نہیں کیا کیا ہورہا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ لاہور میں بڑا افسوسناک سانحہ ہوا ہے ،اگر میرے ساتھ پولیس ہوگی تو لوگوں کی حفاظت کون کرے گا ،
اگر مال روڑ کی حالت یہ ہے تو پھر دوسری روڑز کا کیا حال ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ قانون کے شعبے سے میری وابستگی کے 44 سال ہو گئے، ہماری زندگیاں ایک ہی مقصد کے تحت گزرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ضلعی عدالتیں فوجداری اور دیوانی مقدمات سنتی ہیں، ملک کے اکثر مقدمات ضلعی عدالتوں میں ہیں، عوام کی شکایت ہے کہ
فیصلے برسوں بعد ہوتے ہیں، عوام کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ فیصلے پر اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔انہوںنے کہا کہ موجودہ قوانین میں جو ترامیم آتی ہیں، اب قوانین میں ان کا اندراج نہیں کیا جا رہا، اکثر اوقات پرانا قانون سامنے رکھنا پڑتا ہے اور پھر ہر سال کی ترامیم کا جائزہ لینا پڑتا ہے، پھر خو د یہ کام کرنا پڑتا ہے کہ قانون کی موجودہ
صور ت کیا ہے، پہلے پانچ سالہ، 10 سالہ پاکستان کوڈ کتابی شکل میں شائع ہوتے تھے اب ایسا نہیں ہوتا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں جتنے قانون بنتے ہیں وہ انگریزی میں ہوتے ہیں، اردو میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ،سمجھ نہیں آیا کہ وفاقی پارلیمان ہو یا صوبائی اسمبلیوں میںقانونی اسی وقت اردو میں شائع کیوں نہیں ہو
سکتا،پاکستان میں اردو میں قانون بنانے کی ضرورت ہے، قانون سازی میں اردو زبان میں بھی تیز کام کی ضرورت ہے ، وکلاء تنظیموںکو اس پر بھی بھی آواز بلند کرنی چاہیے ،پاکستان کوڈ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے، جب میں خود وکیل تھا تو زیادہ وقت صحیح قانون ڈھونڈنے میں لگتا تھا، مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے حالات بہتر
بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ میںنے بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جو طریقہ نافذ کیا ہے وہ بھی بتانا چاہتا ہوں او رمیںنے تاخیر کا سبب بننے والے امور کی روک تھام کے لئے چیک لسٹ بنائی ہوئی تھی اور ان کے ذریعے تاخیر سے بچا گیا۔انہوںنے کہا کہ دوستوںمیں حساس باتیں کرنا جائز ہے بلکہ فرض بھی بنتا ہے ۔
میرے بطور چیف جسٹس بلوچستان دور میں ہڑتال کی وجہ سے عدالت کا کام کبھی معطل نہیں ہوا ، وکلاء سے تعلقات بہت اچھے تھے اور میرے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے، بیشتر ایسے مسئلے ہوتے تھے جونظام عدل کی بہتری کے لئے ہوتے تھے او رجس پر کوئی دورائے نہیں ، ہڑتال کی سزا سائلین کو بھگتنا پڑتی ہے ،جج اورعدالت کے عملے کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور ان کو پہلے کی طرح تنخواہ ملتی رہتی ہے ،احتجاج کرنا بھی آئینی حق ہے ۔