کوئٹہ (آن لائن )بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراخترجان مینگل نے ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کو50فیصد شیئرز دینے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ صوبے کی ترقی کے نام پر استحصال ،بلوچستانیوں کے تحفظات دور کئے جائیں تو ہی ریکوڈک معاہدے میں حمایت پرسوچ سکتے ہیں ،گیس سے ملک میں بڑی بڑی صنعتیں قائم اوربڑے شہر آباد ہوگئے
لیکن سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے لوگ آج بھی کھانا پکانے کیلئے لکڑی جلاتے ہیں ،یہاں اعتماد کے فقدان نے بلوچستان میں احساس محرومی ،ناراضگی پیدا ہوئی ہے اسی ناراضگی سے بغاوت اور بغاوت سے لوگوں نے آزادی کے جھنڈے اٹھا لئے ہیں،شنید میں آیاہے کہ ریکوڈک منصوبے کے نئے معاہدے میں بلوچستان کو25فیصد ،25فیصد وفاق کو جبکہ50فیصد متعلقہ کمپنیوں کے ہونگے ،بلوچستان سے نکلنے والی گیس کے حساب سے متعلق سوال کرنا نہ صرف غداری اور ملک دشمنی کے زمرے میں آتاہے بلکہ پاکستان کا وجود خطرے میں پڑھ جاتاہے ،ریکوڈک سے متعلق اپنا فرض ادا کرتے ہوئے ان کیمرہ اجلاس کو آن کیمرہ لاکر سب کے سامنے رکھاہے ، بلوچستان نیشنل پارٹی جام کمال کو نکالنے کے ثواب میں شامل ہیں لیکن عبدالقدوس بزنجو کو لانے کے گناہ میں شامل نہیں ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے خاران ہائوس کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک عبدالولی کاکڑ، ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی ،بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ملک نصیراحمدشاہوانی ،پرنس آغا موسیٰ جان بلوچ ، میرعبدالرئوف مینگل ،موسیٰ جان بلوچ ودیگر بھی موجود تھے ۔سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ بی این پی کے مرکزی کابینہ کااجلاس تھا جس میں ریکوڈک سمیت دیگر اہم مسائل زیر بحث آئے ،بی این پی پر ہمیشہ یہ الزامات لگائے گئے کہ ہم ترقی مخالف ہے ہم نے ہمیشہ اس ترقی کی حمایت کی جس کافائدہ بلوچستان کو ملا ہوں اور اس ترقی کی مخالفت کی ہے جو ترقی کے نام پر استحصال کا باعث بن رہا ہوں ،حالیہ ریکوڈک سے متعلق جو بریفنگ دی گئی ہے مرکزی کابینہ نے بریفنگ کاجائزہ لیا ہم ترقی مخالف نہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا ہوا جاگ کو بھی پونک پونک کردیکھاہے ہم دودھ اور پانی دونوں کے جلے ہیں ،انہوں نے کہاکہ ہمارے حکمران اس بات کا تسلی دیں یا حساب کتاب دیں کہ آج دن تک بلوچستان کے نام پر جو ترقی کی گئی ہے یہاں گیس دریافت کی گئی ،اوجی ڈی سی ایل اور پی پی ایل نے یہاں گیس دریافت کی اور بلوچستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی بنی وہ گیس جو ملک کے کونے کونے تک پہنچ گئی بڑی صنعتیں قائم کئے گئے بڑے شہر آباد ہوئے لیکن بلوچستان آباد ہونے کی بجائے تباہی کے دہانے پر جا پہنچا رائلٹی بھی پوری نہیں مل رہی جو رائلٹی دی جاتی تھی وہ خیرات کی صورت میں مل رہی تھی جو ایک بڑا المیہ تھا سوئی گیس کی آگ میں پورا ملک ترقی کرچکاہے بلوچستان کو تو چھوڑ دیں چند ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز کے علاوہ بلوچستان اس گیس سے محروم ہیں آج بھی سوئی اور ڈیرہ بگٹی سے لوگ لکڑیاں جلا کر کھانا پکاتے ہیں پورے ملک میں گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن بلوچستان کو
توگیس ملتی بھی نہیں یہاں کوئٹہ میں کھانا پکانے کیلئے گیس میسر نہیں ہے یہاں بہت سے مثالیں ملیں جو بلوچستان کوترقی کے نام پر لوٹا گیاہے ،سیندک پر کئی عرصے سے کام ہوا روزگار دینے کی بجائے معدنی دولت لوٹ لی گئی ،سی پیک کے نام پر ترقی پر روز اول سے ہم چیختے چلاتے رہے ہیں بلوچستان کاصرف نام تھا اصل ترقی دوسرے صوبے کر گئے ہیں ،1999ء میں ہمارا جو موقف تھا ہم نے اسی وقت کہاتھا جب یہ سی پیک نہیں تھا2013ء کے بعد سی پیک کا شوشہ چھوڑا گیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دعوتیں دی گئی ہے لیکن گوادر میں 65ملین ڈالر کی رقم کے باوجود بنیادی وسائل سے محروم ہیں ماہی گیروں سے ان کا روزگار چھینا گیا دوسرے صوبوں سے ماہی گیروں کے آنے سے مقامی ماہی گیروں کا استحصال کیاجارہاہے ،انہوں نے کہاکہ اعتماد کے فقدان نے بلوچستان میں احساس محرومی ،ناراضگی ،ناراضگی سے
بغاوت اور بغاوت سے لوگوں نے آزادی کے جھنڈے اٹھا لئے ہیں بلوچستان میں آج کو آپریشنز ہورہے ہیں اس کے پیچھے وہ سابقہ وموجودہ حکمرانوں کی وہ ناانصافیاں ومحرومیاں عوامل ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوتا یا ان خدشات اور تحفظات کو دور نہیں کیاجاتا ہم کسی صورت یقین نہیں کرسکتے ،6نکات کا جو معاہدہ موجودہ حکومت سے کیاگیا تھا اس میں انہی مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی لاپتہ افراد ،گوادر یا بلوچستان کے لوگوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے قانون سازی
،معدنی وسائل کی روک تھام کیلئے ریفائنری قائم کی جائیں ،انہوں نے کہاکہ سیندک سے جو کچھ جارہاہے اس کا حکومت بلوچستان کو بھی علم نہیں ہے اس پروجیکٹ سے سونا،تانبا سمیت کونسے معدنیات کتنے نکلے ہیں کسی کو کوئی اندازہ نہیں ہے اس اندازے پر پرچہ تھما دیتے ہیں کہ آپ کی رائلٹی 2فیصد بنتی ہے ہم اس کو مال غنیمت سمجھ کر گزارہ کرتے ہیں بلوچستان سے جو گیس نکلی ملک کے کونے کونے پہنچی لیکن کسی کے پاس کوئی حساب نہیں کہ کتنا گیس نکلا ہے جب ہم حکومت میں تھے تو
حتی الوسیع کوشش کی کہ پتہ چلے کہ بلوچستان سے کتنا گیس نکل رہاہے بدقسمتی سے یہ سوال کرنا غداری ،ملک دشمنی کے زمرے میں آتاہے بلکہ پاکستان کا وجود خطرے میں پڑھ جاتاہے وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے کوٹے پر کتنا عمل درآمد ہواہے ،فارن سروسز میں بلوچستان کے کوٹے پر مشکل ایک عاد کوئی ملے گا وہ بھی ایسے ہیں جن کا صرف تعلق بلوچستان سے ہوں انہوں نے کہاکہ
ہم تب تک کسی ایسے معاہدے کو سپورٹ نہیں کرینگے جب تک بلوچستان کے وہ جملہ مسائل جن کاایک انبھار بنایاگیاہے ان پرعملدرآمد نہیں ہوتا موجودہ حکومت نے اعداد وشمار دئیے ہیں جو پہلے اسٹیج پر ہے جس میں کہاجارہاہے کہ بلوچستان کو ریکوڈک میں 25فیصد حصہ دیاجارہاہے 25فیصد وفاق کا ہوگا جبکہ 50فیصد کمپنیز کا ہوگا جنہیں پہلے لائسنس دیاجائے گاسوال یہ پیدا ہوتاہے کہ قدرتی وسائل کے مالک بلوچستان کے لوگ ہیں پاکستان کے آئین کے مطابق آرٹیکل 52میں واضح لکھاہے کہ
جہاں سے گیس پیدا ہوگی اس پر سب سے پہلا حق وہاں کے لوگوں کا ہوگا لیکن اس پرعملدرآمد نہیں کیاجارہا اب جب وہ چاہتے ہیں کہ 25فیصد ہم سمجھتے ہیں کہ پہلے بلوچستان کا حساب وکتاب کیاجائے اور تحفظات ختم کئے جائیں پھر بیٹھ کر بات کی جائیں کہ ہم 25فیصد پر راضی ہوتے ہیں یا 50فیصد ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی سمجھتی ہے کہ بلوچستان کا حق 50فیصد ہے اس پر چیک رکھنے کیلئے اگر اس مالک کو پتہ نہیں کہ اس کے گھر سے کیاجارہاہے تو انہیں مالک کہلانے کالائق بھی نہیں ہے اس کیلئے
ضروری ہے کہ ان علاقوں میں ایک ریفائنری قائم کی جائیں تاکہ پتہ چلے کہ کتنا تابنا ،کتنا سونا اور کتنا سلور نکل رہاہے اور نایاب دھاتیں جن کی قیمت سونے سے بھی زیادہ ہیں ،جدید ٹیکنالوجی کمپیوٹرز سے لیکر موبائل فون تک وہ مواد استعمال کیاجاتاہے اس علاقے میں ان دھاتوں کی ایک بڑی مقدار پائی جارہی ہے ،انہوں نے کہاکہ 2003ء میں جو سروے کیاگیاتھا اور بنیادی سروے 2011ء میں ہواتھا اس کے مطابق 6لاکھ ٹن کاپر یہاں پر موجود ہیں ٹوٹل علاقہ 482سکوائر کلومیٹر ہے پہلے بی ایچ پی کے ساتھ معاہدہ ہواتھا جس نے دوسری کمپنی کو دیاتھا یہ کمپنیاں 73.55فیصد کے شیئر ہولڈرز تھے یہ واضح نہیں کیاگیاکہ
ان کمپنیوں کو 100سکویئر کلومیٹر مائننگ لیز کیلئے الاٹ کیاگیاتھا382سکویئر کلومیٹر بچا ہواہے کیا ان بچے ہوئے علاقے کو بھی ان کمپنیوں کو دیاجائے گا یا اس کیلئے اور بیڈ لائی جائے گی ،معاملہ اب تک پہلے مرحلے میں ہے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اگر موجودہ کمپنیوں میں وہاں ریفارئنری لگانے کی صلاحیت نہیں تو دوسری کمپنیوں کو یہ آفر کیاجائے کہ وہ آئیں اور یہاں ریفائنری لگائیں بلکہ بے روزگاری کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا بلوچستان میں بارڈر ٹریڈ بند ،کوسٹل بیلٹ میں ماہی
گیروں پر ماہی گیری کا روزگار بند،وفاقی ملازمتوں میں کوٹے نہیں دئیے جارہے ،صوبائی محکموں میں ایسا سہولت نہیں کہ لوگوں کو روزگار مہیا کرسکے ،اگرریفائنری لگائی جائیں تو بے روزگاری کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوسکتاہے ،انہوں نے کہاکہ نایات دھاتیں 18سے لیکر19لاکھ میٹرک ٹن اس علاقے میں پائے جارہے ہیں ،کہاجاتاہے کہ بلوچستان اس خطے کا امیر ترین صوبہ ہے لیکن یہاں کے لوگ دنیا کے غریب ترین لوگ ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ترقی کے نام پر روزاول سے لوگوں کا
استحصال ہواہے ہم اب بھی کسی ایسے معاہدے کی مخالفت کرینگے جو استحصال پر مبنی ہوں ،اور دوسری سیاسی جماعتوں جو بلوچستان یا باہر کی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر ان کے سامنے معاملات رکھیں۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ ریکوڈک سے متعلق معاہدہ عوام کے سامنے ہوناچاہیے تھا بی این پی کے ارکان اسمبلی نے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھایا تھا جب معاملہ اسمبلی میں اٹھایا گیا تو حکومت نے ان کیمرہ بریفنگ دی ہمارا یہ
فرض بنتاہے کہ ہم نے ریکوڈک کو آن کیمرہ لایا ہماری شنید میں آیاہے کہ معاہدہ انہی کمپنیوں سے کیاجارہاہے ،انہوں نے کہاکہ ہم جام کمال کو نکالنے کے ثواب میں شامل ہیں اور عبدالقدوس بزنجو کو لانے کے گناہ میں ہم شامل نہیں ہے جہاں تک ہماری پارٹی پر الزام لگایاجارہاہے ہماری جماعت سیاسی جماعت اور پارلیمانی سیاست کررہی ہے گزشتہ حکومت نے ہمیں اس حد تک مجبور کیا ہم نے کسی غیرآئینی طریقے سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لیا ہم نے قانونی راہ اختیار کیا اور دوسری
حکومت پر بھی واضح کیاہے کہ سابقہ حکومت کو نکالنے کی وجہ غیر منتخب لوگوں کو نوازنا جو ایک یونین کونسل کی سیٹ نہیں جیت سکتے کو منتخب لوگوں کے مقابلے میں نوازا جاتا تھا انہوں نے کہاکہ سی پیک پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیاگیاتھا سی پیک معاہدے پر جن حکومتوں نے دستخط کئے آج وہ بھی پچھتا رہے ہیں ہم آج بھی کوشش کررہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں ہم اپنا فرض پورا کرینگے ،انہوں نے کہاکہ ان کیمرہ بریفنگ میں تمام جماعتیں شامل ہیں جو تفصیلات ہمارے سامنے آئی ہم نے واضح پیغام بھیجاہے کہ ہم کسی بھی معاہدے کو سپورٹ کرینگے اور نہ ہی اس کا حصہ بنیں
گے اگر اس طرح کا معاہدہ کیاگیا تو عوام کے سامنے اور قومی اسمبلی میں اس پر آواز بلند کرینگے ۔اگر پہلے لوگ معاہدے کو پڑھتے تو آج آنسو نہیں بہاتے یا پھر یہ کہاجائے کہ سیاسی طور پر سمجھ گئے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ رولز کے تحت اگر اجازت ہوتی تو ہم کارروائی کرتے فلور کراسنگ کیلئے ثبوت چاہیے یہ سکریٹ بیلٹ تھا جس کی وجہ سے ثبوت نہیں ہے جو بھی پارٹی کے فیصلے کی
خلاف ورزی کریگا اس کے خلاف کارروائی ہوگی ،پارٹی کا ان کے ساتھ رشتہ ختم ہوگیاہے اب یہ ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ رشتہ رکھتاہے یا نہیں ۔انہوں نے کہاکہ ملکی حالات اور مہنگائی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ پہلے ایک سال میں لوگ سرپیٹتے تھے اب تو ہر ماہ سر پھیٹ رہے ہیں 17فیصد اضافہ اشیائے خوردونوش ،ضروری استعمال سمیت دیگر چیزوں میں کیاجارہاہے ،دو ہفتے پہلے
پیٹرول کی قیمت 3روپے کم اور پھر 4دن بعد قیمتوں میں 5روپے اضافہ کرتے ہیں آج لگ رہاہے کہ فیصلے ہمارے ملکی ادارے ،پارلیمنٹ نہیں بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کررہی ہے آپ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے محتاج ہونگے تو پھر ٹرمز اینڈ کنڈیشن ان کے ہونگے جہاں تک الیکشن کی بات ہے یہاں الیکشن کرانے اور الیکشن کی تاریخ دینے والے ہم اور آپ ہوتے تو ٹھیک ہوتا یہاں الیکشن کیلئے
حالات کو ہموار کرنے اور ناخوشگوار کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے سامنے آپ بھی بے بس ہیں اور ہم بھی بے بس ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ملک کی بدقسمتی ہوگی کہ پی ڈی ایم حالات کافائدہ نہیں اٹھا سکی کچھ جماعتیں پی ڈی ایم سے نکل گئی آج اس پلیٹ فارم پر جماعتیں ہیں وہ اپنے نکات پر قائم رہیں بات آج کی نہیں بلکہ ملک کے آنے والے مستقبل کی ہے ۔پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی جو بھی کرے گا
اسکے خلاف کارروائی ہوگی فی الحال شوکاز کا نوٹس دیاہے جواب کاانتظار ہے ،بی این پی اپنی پارٹی کی ذمہ داری لے سکتی ہے کسی اور کی نہیں ڈاکٹرجہانزیب نے 6سال بلوچستان کے مسائل جس طرح اجاگر کئے تو سب کے سامنے ہیں یہ اور بات ہے کہ جب میری شکل آپ کے کیمرے کو پسند نہیں تو اس بیچارے کی شکل آپ کو کہاں سے پسند آئے گی۔