لاہور (آن لائن)پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ (پیاف) کے سینئر وائس چیئرمین ناصر حمید خان اور وائس چیئرمین جاوید اقبال صدیقی نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود مزید1 فیصداضافہ سے20 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جس سے معیشت مزید منجمد و سست روی کا شکار ہو جائے گی جو پہلے ہی مہنگائی کا شکار ہے۔
حکومت کی جانب سے مقرر کردہ شرح نمو5 فیصد کا ہدف بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ 9.75فیصد شرح سود کے ساتھ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مقابلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جہاں شرح سود 0 یا 1فیصد سے بھی کم ہے ۔چھوٹی صنعتوں اور تاجروںکو فنانسنگ کیلئے مزید مشکلات پیدا ہونگی۔ناصر حمید نے کہا کہ ہماری ز یادہ تر ملکی برآمدات کریڈٹ بیسڈ ہیں، انٹرسٹ ریٹ بڑھنے سے ان پٹ کاسٹ بڑھ جائے گی اور عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا مزید مشکل ہو جائے گا جس سے برآمدات کو بڑھانے میں مشکلات آئیں گی اور تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا۔ اس وقت مہنگائی کی شرح 11.5فیصد تک پہنچ گئی ہے جو باعث تشویش ہے۔حکومت افراط زر سے نمٹنے کے لئے شرح سود بڑھانے کی بجائے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو کنٹرول کرے ، غیر پیداواری اخراجات کو ختم کرے اور غیر ضروری درآمدات پر فی الفور پابندی لگائے۔ بزنس کمیونٹی پہلے ہی بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت، افراط زر اور روپے کی قدر میں کمی سے پریشان ہے اور اب شرح سود میںمزید اضافہ سے انکے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا اور کاروباری اداروںکے ڈیفالٹ سے بینک اور قرضداروںمیں قانونی تنا زعات جنم لیں گے ۔اس فیصلے سے حکومت پر بھی دبائو بڑھ جائے گا اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے زیادہ سرمایہ صرف کرنا پڑے گا جس سے سماجی شعبہ سمیت تمام شعبہ جات متاثر ہونگے۔ مرکزی بینک کا فیصلہ شرح نمو میں اضافہ کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دے گاجبکہ سرمایہ کاری کے امکانات معدوم ہو جائیں گے جس سے بے روزگاری کے خاتمہ، صنعتی فروغ اور بے روزگاری میں کمی کے حکومتی ویژن کو بریک لگے گی ۔پاکستان میں خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کاروباری لاگت پہلے ہی بہت زیادہ ہے، کاروباری برادری کو سستے سرمائے کی ضرورت ہے ۔حکومت اس صورتحال کو فوری طور پر ایڈریس کرے ا اور جلد بازی میں فیصلہ کرنے کی بجائے اپنا فیصلہ واپس لے اور پالیسی ریٹ کو خطے کے دیگر ممالک کے لیول تک لائے۔