اسلام آباد ( آن لائن ) گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے توہین عدالت شوکاز نوٹس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریری جواب جمع کرادیا۔ رانا شمیم نے توہین عدالت شوکاز نوٹس پر تحریری جواب جمع کرواتے ہوئے کہا کہ جو کچھ حلفیہ طور پر کہا ، ثاقب نثار کا ان حقائق پر سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں ، ثاقب نثار سے گفتگو گلگت میں ہوئی جو پاکستان کی حدود سے باہر ہے،
میں نے بیان حلفی پبلک نہیں کیا اور میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی ، اپنی زندگی کے دوران پاکستان میں بیان حلفی پبلک نہیں کرنا چاہتا تھا۔رانا شمیم نے کہا کہ برطانیہ میں بیان ریکارڈ کرانے کا مقصد بیان حلفی کو بیرون ملک محفوظ رکھنا تھا۔ جواب میں مزید کہا گیا کہ ثاقب نثار سے گفتگو گلگت بلتستان میں ہوئی جہاں پاکستان کے قوانین لاگو نہیں ہوتے لہذا توہین عدالت کی کارروائی واپس لی جائے۔بیان حلفی کیس میں رانا شمیم نے تحریری جواب میں کہا کہ میں نے اپنا بیان حلفی پولیس کو بھیجا نہ کسی اور کو ، بیان حلفی میں بیان کئے گئے حقائق بتانے کو تیار ہوں ، سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے حلف نامے کی کاپی جمع کر ارہا ہوں ،سوشل میڈیا والے حلف نامے کے مندرجات وہی ہیں جو میرے جواب میں ہیں ، میں قانون کی پاسداری کرنے والا شخص ہوں ، کبھی عدلیہ کو بدنام کرنے یا مذاق آرانے کا ارادہ نہ تھا ، نہ ہی کسی عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔تحریری جواب میں کہا گیا کہ حلف نامے میں بیان واقعہ 15 جولائی 2018 کی شام 6 بجے کے پاس کا ہے ، اس وقت میں اور سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار ایک ساتھ چائے رہے تھے ،میں نے مرحومہ بیوی سے وعدی کیا تھا کہ اس وقت پیش آنے والی حقیقت کو تحریری طور پر ریکارڈ کراؤں گا، حلف نامے کی شکل میں مرحومہ بیوی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا ، عدلیہ کی تضحیک کا ارادہ ہوتا تو پاکستان میں حلف نامہ میڈیا کو دیتا ، 4 جون 2021 کو اہلیہ کے انتقال کے بعد میرا پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ امریکہ سے واپس آتے ہوئے دو روز لندن میں رہا جہاں اپنے پوتے سے ملاقات کی جو قانون کا طالبعلم ہے ، میں بیان حلفی کو اپنی زندگی میں عام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اس لئے مناسب سمجھا کہ اپنا بیان ریکارڈ کراؤں اور حلف نامہ پاکستان سے باہر نوٹرائز کراؤں۔ میں نے بیان حلفی پوتے کو دیا اور ہدایت کی کہ اسے نہ کھولے۔سابق چیف جج شمیم رانا نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حلف نامہ رپورٹ تک کیسے پہنچا ، واقعہ گلگت بلتستان کا ہے جہاں پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، لہذا توہین عدالت کی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔تحریری جواب میں مزید کہا گیا کہ عدالت کو پریشانی ہوئی تو افسوس کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوگی ، عاجزی سے عدالت سے درخواست ہے کہ شوکاز نوٹس واپس لے لیا جائے۔