راولپنڈی (آن لائن) آل پاکستان پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشنز نے کنٹونمنٹ کے علاقوں سے نجی تعلیمی اداروں کی بے دخلی کے خلاف آج (بروز منگل )راولپنڈی و چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں واقع تمام نجی تعلیمی ادارے بند رکھنے اور راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کے سامنے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کر دیا ہے ایسوسی ایشنز نے خبردار کیا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کی بے دخلی کی
صورت میں ایک بڑا المیہ جنم لے گا 8300 تعلیمی ادارے بند ہونے سے 37 لاکھ بچے تعلیمی اداروں سے باہراور 4 لاکھ مردو خواتین اساتذہ بے روزگارہوجائیں گے لاکھوں خاندان معاشی مسائل کے گرداب میں پھنس جائیں گے ان خیالات کا اظہار آل پاکستان پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں چوہدری ناصر محمود، ملک اظہر محمود،ابرار احمد خان، چوہدری محمد طیب، اشرف ہراج، رانا سہیل،محمد عثمان، ملک نسیم احمد، حافظ محمد بشارت، راجہ نصیر احمد جنجوعہ، محمد آصف، شہباز قمر، چوہدری امجد زیب، ندیم شیراز نے پیر کی شام راولپنڈی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا چوہدری ناصر محمود نے کہا کہ2017 میں ہارلے سٹریٹ میں رہائشی پلاٹ پر سکول کی تعمیر اور بعدازاں راولپنڈی کینٹ سے کمرشل نقشہ کی منظوری کے ایک مقدمہ کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے اپنے فیصلہ میں تمام کنٹونمنٹس انتظامیہ کو ہدایات جاری کیں کہ کنٹونمنٹس کی حدود میں واقع تمام نجی تعلیمی اداروں کو رہائشی علاقوں سے بتدریج نکال کر کمرشل علاقوں میں منتقل کیا جائے اس فیصلہ پر نجی تعلیمی اداروں کے مالکان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور سکولز مالکان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے راولپنڈی کی مختلف تنظیموں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس اعتبار سے حیران کن تھا کہ معاملہ 2 فریقین کے مابین تھا
اور فیصلہ ملک کے 42کنٹونمنٹس کے لئے آ گیا جولائی 2018 میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک احتجاجی مظاہرہ راولپنڈی کینٹ بورڈ کے سامنے کیا اور دوسرا بڑا احتجاجی مظاہرہ راولپنڈی پریس کلب کے باہر مری روڈ پر کیااس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ان تعلیمی اداروں کو 3 سالوں کی مہلت دے
دی،دی گئی مہلت 31 دسمبر کو ختم ہورہی ہے ان 3سالوں میں کنٹونمنٹ انتظامیہ نے کوئی نیا ادارہ نہ بنایا پہلے سے موجود 5 تعلیمی اداروں میں سے 4 تعلیمی ادارے ختم ہوگئے ان 3 سالوں میں کوئی نیا تعلیمی ادارہ نہیں بنایا گیا کنٹونمنٹ انتظامیہ نے نجی تعلیمی اداروں کو ان 3 سالوں میں سوائے نوٹس دینے کے اور کچھ نہیں کیا ابرار
احمد خان نے کہا کہ کنٹونمنٹس کی حدود میں چلنے والے تعلیمی ادارے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے رہے ہیں سال2000 تک کینٹ کی حدود میں تعلیمی ادارہ کھولنے کے لئے سٹیشن کمانڈر سے باقاعدہ این او سی لیا جاتا رہا ہے فیڈرل تعلیمی بورڈ سے الحاق کی شرائط میں سے ایک شرط تعلیمی ادارے کا کینٹ کی حدود میں ہونا لازمی
تھاتمام نجی تعلیمی ادارے اپنے قیام سے لے کر اب تک کنٹونمنٹ بورڈ کو تمام قسم کے ٹیکسز دیتے آرہے ہیں ملک بھر کے 42 کنٹونمنٹ بورڈز نجی تعلیمی اداروں سے ریونیو کی مد میں کروڑوں روپے اکٹھے کرتے ہیں ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اس حساس معاملہ پر فوری طور پر نوٹس لیں جب تک ہماری
نظر ثانی کی اپیلوں پر سپریم کورٹ فیصلہ نہیں دے دیتی اس وقت تک کنٹونمنٹس نجی تعلیمی اداروں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کریں انہوں نے کہا کہ کنٹونمنٹ کی طرف سے نجی تعلیمی اداروں کے خلاف بعض اقدامات آئین سے متصادم ہیں کنٹونمنٹ عملہ کی طرف سے صرف نجی تعلیمی اداروں کو نوٹس جاری کرنا عدالتی فیصلے کی غلط تشریح اور نفاذ ہے حکومت کنٹونمنٹ کے زیر انتظام علاقوں سے نجی تعلیمی اداروں کی منتقلی کے معاملے پر سٹیک ہولڈرز سے ملکر کوئی قابل عمل حل نکالے۔