کراچی (این این آئی) پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد کی طرف مارچ کااعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انقلاب کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ،ہم تھکے نہیں ،جلسے بھی ہونگے اور رو ڈ کاروان بھی چلیں گے ،حکومت کی انتخابی اصلاحات کو جوتے کی نوک پررکھتے ہیں ، ان کی مشین ووٹ چوری کر نے میں مہارت رکھتی ہے، تم دوسروں کو احتساب کے طعنے دیتے ہو ،
فارن فنڈنگ کیس ،مالم جبہ ، پشاور کی بی آر ٹی ، گندم سمیت تمارے خلاف کھربوں کے سکینڈل کیوں دفن کر دیئے گئے ،نیب ایک جانبدار ادارہ ہے ،ادارہ کو ختم کر دینا چاہیے،تم دوبارہ دھاندلی کے ذریعے آکر دکھائیں ؟ تم نے مذاق بنالیا ہے ،، گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام کے ووٹ چوری کر کے پی ٹی آئی کو دیئے گئے ،وزیر اعظم معلوم نہیں کشمیر پر پاکستان کا ریاستی موقف کیا ہے ؟قافلہ چل پڑا ہے تھمے گا نہیں ، عوام کا سمندر حکمرانوں کو بہا کر لے جائیگا ،عمران خان کبھی کبھی نمائش کر نے کیلئے امریکہ کے خلاف ایک جملہ کہہ دیتا ہے،امریکی پاکستانی اڈوں کو اپناسمجھتے ہیں ،آپ نے کس بنیاد پر پاکستان کے ہوٹل امریکیوں کے حوالے کئے ، ان کیلئے تو کوئی ویکسین شرط تک نہیں ،افغان طالبان نے معافی کااعلان اور وسیع البنیادحکومت کی پیشکش کی ہے ، افغان سیاسی قوتیں فراخدلی سے پیشکش قبول کریں، امریکہ اور مغربی قوتیں بھی معاہدے کی پاسداری کریں اور اپنی شکست تسلیم کریں ۔ اتوار کو یہاں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانافضل الرحمن نے کہاکہ کامیاب اور فقید المثال کانفرنس کے انعقاد پر آپ کو سلام پیش کرتا ہوں ۔انہوںنے کہاکہ پی ڈی ایم کے قائدین نے ملک کے حالات اور ملک کی سیاست کے ہرپہلو سے آپ کو آگاہ کیا ،یقینا میں ان کے ارشادات پر اضافہ تو نہیں کرسکتا لیکن موجودہ جعلی حکمرانوں کی تین سالہ کار کر دگی پر اتنا تبصرہ ضرور کر سکتا ہوں کہ ان تین سالوں میں انہوںنے پاکستانی ریاست کو ایک غیر محفوظ ریاست بنادیا اور پاکستانی قوم کو ایک غیر محفوظ قوم بنا دیا ۔ انہوںنے کہاکہ قومیں آگے کی طرف بڑھتی ہیں ، دنیا کے اقوام کے ساتھ قدم ملا کر آگے کو جاتی ہیں ،آج دنیا آگے بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان پیچھے کی طرف دھکیل دیا گیا ہے ، ظاہر ہے ایسی صورتحال پر ہم خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے ، ہم نے بائیس کروڑ پاکستانی عوام کے شانہ بشانہ اسے دنیا میں ایک ممتاز قوم کی حیثیت دینے کی قسم کھا رکھی ہے اور انشاء اللہ عوام کو دنیا کو ایک ممتاز مقام دیکر ہی دم لینگے ۔انہوںنے کہاکہ بہت سے اسباب آئے ، رمضان شریف گزرا ، گرم کا موسم گزرا ،کرونا کی صورتحال ایک عالمی وباء کی طرح معاشرے پر چھا گیا جس کی وجہ سے پی ڈی ایم جلسوں کا تسلسل کچھ عرصہ کیلئے متاثر ہوا اور تبصرے ہونے لگے کہ پی ڈی ایم خاموش ہوگیا ہے یہ جلسہ بتارہا ہے کہ آپ زندہ ہیں ، پی ڈی ایم زندہ ہے ، ہم فعال ہیں اور ہم نے اپنی منزل کی طرف رواں دواں سفر کو نہ روکا ہے نہ روکیں گے ،محرم کا مہینہ یہی بتاتا ہے کہ یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرنی ہے ۔انہوںنے کہاکہ ہم پھر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں یہ حکومت ناجائز ہے اس کو کوئی عرامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے یہ جعلی ووٹ کے ذریعے جبر کی بنیاد پر کرسی پر مسلط ہے اور جو طبر کے طبقے ایسے حکمرانوں کیپشت پناہی کررہ ہیں اشناء اللہ ہم نے مرد میدان بن کر ان کا بھی مقابلہ کر ناہے اور دنیا کو بتانا ہے پاکستان میں کسی خاص طبقہ کو ملکی سیاست میں حصہ لینے اور دخل اندازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔انہوںنے کہاکہ اگر کوئی ہمارہ ادارہ سیاست میں مداخلت کرتا ہے تو وہ آئین کے حرف سے روگر دانی کررہا ہے ، اگر ہم اس طرح جمہوریت کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ہم نے پارلیمنٹ میں بار بار حلف اٹھائے ہیں ، ہر ایک کو اپنے حلف قائم رہنا چاہیے ،آئین کے مطابق ملک کو حکمرانی دینی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ قانون اور پارلیمنٹ کو بالادستی دینی ہے اور اس کے نیچے پاکستان کو چلانا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کو سالانہ ترقی تخمینہ ساڑھے پانچ فیصد قوم کو دیا گیا اور اگلے سال کیلئے ساڑھے چھ فیصد کااعلان کیا گیا مگر اس نا اہل حکومت نے ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے گرادیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ معیشت جمود کا شکار ہے، یہ ایک دو پوائنٹ جو بتاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بول رہے ہیں ، تمہاری نا اہلی کے نتیجے میں غریب انسان کیلئے جینا مشکل ہوگیا ہے ،آپ تنگ محلوں میں جائیں ، تنگ گلیوں میں جائیں ، پہلے پانچ افراد میں سے دو روز گار ہوتے تھے، اگر ایک حویلی کے اندر پانچ افراد ہیں تو چار بے روز گار ہیں اور ایک آدمی اس دور میں کیسے پال سکے گا،
آج غریب آدمی کے جیب میں اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ بازار سے راشن لے ، مہنگائی بڑھ گئی ہے ، آٹا اور گندم نہیں مل رہی ، چینی اور گھی نہیں مل رہا ہے ، ادویات کی قیمتیں کہاں پہنچ گئی ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ مجھے ایک ڈاکٹر نے بتایاکہ میں اپنے علاج کیلئے دوائی نہیں خرید سکتا ہے کیونکہ یہ بہت مہنگی ہوگئی ہے ، تم نے ملک کو کہاں پہنچا دیا ہے ، کیا پاکستان اس لئے بنا تھا چند لوگ عیاشاں کریں اور نا اہل لوگ حکومت کرینگے ، پاکستان نا اہلوں کیلئے نہیں بنا یا گیا ۔ انہوںنے کہاکہ لوگوں اٹھو انقلاب لائیں ،
انقلاب کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ، دنیا کو بتانا ہے ہم نے جو عہد کیا ہے انشاء اللہ اس پر پورا اترینگے ۔انہوںنے کہاکہ قوم سے کہنا چاہتا ہوں کہ مایوسی کی طرف نہیں جانا ۔ انہوںنے کہاکہ سمندر نے مچھلی سے کہا کب تک تیرتی رہو گی ، تھک جائو گی تو مچھلی نے کہا جب تک تیرے اندر موجیں مارنے کی سکت ہے میرے اندر تیرنے کی سکت ہے ۔انہوںنے کہاکہ ہم تھکے نہیں ہیں ،اپنے جذبوں کو بلند رکھیں ، اپنی جرات کو قائم رکھیں ، بزدلی کسی کافر کی علامت ہوتی ہے ،بزدلی کسی مومن کی
علامت نہیں ہوتی ۔ انہوںنے کہاکہ جب آپ کی معیشت کمزور ہے ، آپ کبھی بھی ایک کامیاب خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے ، جب تک آپ دنیا کے مفادات اپنے ساتھ وابستہ نہیں کر سکیں گے آپ اپنے ملک کیلئے دوست پیدا نہیں کر سکیں گے ، چین خطے کی سپر طاقت ہے ، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ویٹو پاور ہے لیکن ہم نے چین سے کہا کہ پاکستان کے راستے سے آپ دنیا کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں اور سیاسی جماعتوں اور نوازشریف نے سی پیک کا افتتاح کیا ، کام شروع ہوا ،چین کے مقابلے میں
عالمی قوتوں کوبر داشت نہیں ہوا ،پاکستان ترقی کی راہ پر جانے لگا ، چین نے پاکستان کو ترجیح دی یہ بہت بڑی کامیابی تھی ،سترسالہ دوستی کو معاشی دوستی میں تبدیل کیا ، عمران خان کبھی کبھی نمائش کر نے کیلئے امریکہ کے خلاف ایک جملہ بھی کہہ دیتا ہے، امریکی ایجنٹ کا کر دار ادا کرتے ہوئے پاکستان کو دوستوں سے محروم کیا ، پاکستان کی معیشت کو زمین بوس کر دیا ہے ، آج ہم تنہائی کا شکار ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ جس امریکہ اور جس مغرب اور ان کے بینکوں کی امداد کے لالچ میں
ہم نے چین کی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کیا ، انہوںنے بھی ہمیں تنہا کر دیا ہے ، ہم ہمیشہ ان کے لقموں پر پلنے کی سیاست اور معیشت کرتے ہیں انہوںنے بھی ہمیں کچھ نہیں دیا اور آج ہم کہہ رہے ہیں افغانستان میں ہم کسی کارروائی کیلئے پاکستان کے ہوائی اڈے نہیں دینگے ، تم سے اڈے مانگے کس نے ہیں اڈوں کو وہ پہلے سے اپنا سمجھتے ہیں فضائی اب بھی استعمال کرتے ہیں آپ نے امریکیوں کو ہوٹل ان کے حوالے کر دیئے ، کس بنیاد پر یہ کیا ، ان کیلئے کوئی ویکسین شرط نہیں ہے ،
جو افغانستان میں بیس سال انسانیت کا خون کر چکا ہے جو انسانی حقوق کو پامال کر چکا ہے اور جس کے ہاتھوںسے انسانیت کا خون ٹپک رہا ہو اسے انسانیت کی قیادت کر نے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ انہوںنے کہاکہ آج ہم نے کس کے مفادات کیلئے اپنے جغرافیہ کو تبدیل کر دیا ہے ، ہم نے کشمیر بیچ دیا ، اس مودی کو جو ہمارا فون سننے کیلئے تیار نہیں ہے ، اور باقی کشمیررہ گیا ہے اس پرکہتا ہے میری حکومت آئی توآزاد کشمیر کے لوگوں کو ریفرنڈم کی اجازت دونگا ،ان کی مرضی ہے
،آزاد زندگی گزاریں یا پاکستان کے ساتھ رہیں ، اس وزیر اعظم کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ کشمیر پر پاکستان کا ریاستی موقف کیا ہے ؟ سلامتی کونسل کی قرارداد کیا تقاضا کرتی ہیں ایسے شخص کے ہاتھ میں کشمیر دینا یہ کشمیر کو بیچنے کے مترادف ہے ، دعویٰ سے کہتا ہوں کہ پاکستا ن کے عوام کا ووٹ چوری کر کے پی ٹی آئی کے حوالے کیا گیا ،گلگت بلتستان اور کشمیر کے عوام ووٹ کو چوری کر کے پی ٹی آئی کو دیا گیا ہے یہ نا اہل لوگ ہیں ، انہوںنے کہاکہ ان کی حکومت نے گلگت کا مستقبل مخدوش ہے ، ہم نے فاٹا کا انضمام کیا ، قبائل رگ گئے ،ڈیڑھ سے دو کروڑ کی آبادی پچھلی مردم شماری میں پچاس لاکھ لکھی گئی اپنے ملک میں ہجرت پر مجبور کر دیا گیا ،آیک ایک گائوں اور قبائلی کا گھر تباہ ہو
چکا ہے وہ کھنڈروں میں واپس آرہے ہیں نے ہم وعدہ کیا تھا ہر سال ایک ارب روپے دینگے ، دس سال تک رقم دینگے ، پانچ سال گزر گئے ہیں ان کو سو ارب روپے کیا پانچ سال میں بھی پچاس ارب مشکل سے دیئے ہیں ، مسعودوں کے علاقوں میں گیا ہوں ، مجھے دوستوں نے کہا کہ پورے شہر میں ایک گھر بھی ایسا نہیں کہ ہم آپ کو اس گھر میں بیٹھا دیں ۔انہوںنے کہاکہ بالآخر ہمیں ایک سکول میں جگہ بنانا پڑی ، کس کرب سے قوم گزری ، آنے والے مستقبل کا کوئی علم نہیں ؟ہمیں اندھیرے کی طرف دھکیل دیا گیا ہے
اس طرح جغرافیہ تبدیل کیا جارہاہے ۔ انہوںنے کہاکہ بد امنی کا ذکر ہوا ، ہمیں نوید بتائے گئے ، ہم اپریشن کررہے ہیں، ہم نے دہشتگردوں کا خاتمہ کر دیا ہے ،میرے پیچھے قبائلی علاقہ ہے ، پیچھے افغانستان ہے ، آج بھی صورتحال جوں کی تون ہے ، میری بیٹیوں ، مائوں اور بہنوں کو گھروں سے نکال کر در بدر کیا ،پھر اس ماحول میں این جی اوز کو بھیجا جن کا سوائے فحاشی کے کوئی کر دار نہیں ہے ۔ انہوںنے کہاکہ انشاء اللہ پاکستان میں صرف جلسے نہیں ہونگے ، جلسے بھی ہونگے اور رو ڈ کاروان بھی چلیں گے اور اسلام آبادکی طرف مارچ بھی ہوگا ۔انہوںنے کہاکہ افغانستان میں آج امارت اسلامیہ کی طرف سے وسیع البنیاد حکرمت کی پیش کش ہوئی ، عام معافی کااعلان بھی ہوا ، بگرام جیل گوانتاموبے جو انسانی مظالم ہوئے وہ سب معاف کر دیئے اور سب کو کہا ہے آئو حکومت میں شریک ہو ،افغانستان کی تمام سیاسی قوتوں سے کہناچاہتا ہوں جس فراخدلی کا مظاہرہ افغانستان کی ایک فاتح امارت اسلامیہ نے کیا آپ کو بھی اسی فراخدلی کے ساتھ اس دعوت کو قبول کر لینا چاہیے ، جو غیر مشروط پیشکش انہوںنے کی ہے آپ غیر مشروط طورپر پیشکش کو قبول کریں ۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ اور مغربی دنیا نے کیا ہے اور معاہدے کی پاسداری کریں اور افغانستا ن میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کیلئے نئی نئی شرطیں نہ لگائیں دل سے مان لیں تم شکست کھا چکے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ اگر امریکہ اور نیٹو افغانستان کی شکست خوردہ قوتیں ہیں کبھی شکست خوردہ قوتیں اخلاقی طورپر نئی شرائط نہیں لگائیں ، ہم چاہتے ہیں خطے میں امن قائم ہو ، ہم چاہتے ہیں پڑوسی ممالک کے ساتھ مستحکم اور اچھے تعلقات ہوں ،چین ، ایران ، ہندوستان کی صورتحال پر ایک مضبوط عوام کی نمائندہ حکومت ہی کوئی پالیسی بنالیتی ہے ، یہ ڈرپوک پاکستان کی پالیسی بنا سکتے ہیں ؟ اس بات کی پالیسی بناسکتے ہیں آج کا دن کس نشے میں گزارنا ہے،
یہ صرف یہی پالیسی بنا سکتے ہیں کہ ہم آج کونسی عیاشی کرنی ہے ، سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ، افغانستان کے مسئلے پر ہندوستان کو شریک کیا گیا لیکن پاکستان کے مندوب کو شریک نہیں کیا گیا ، تم نے انسانی حقوق کمیشن ایک قرار داد پیش کی ، تمہیں تو یہ بھی پتہ نہیں تھا اس کمیشن کے ارکان کتنے ہیں ، ہماری وزارت خارجہ بیان دیتی تھی 57ممالک کی حمایت حاصل ہیں پتہ چلا کل اراکین بھی 47ہیں اور پھر قرارداد پیش کر نے کیلئے دنیا کے سولہ ممالک کی حمایت ضروری تھی ہم وہ بھی
حاصل نہیں کرسکے ۔ انہوںنے کہاکہ اب تو ذرا سوچ لیں ، ہم نے قربانیاں دیکر پاکستان کوبچانا ہے ،قربانیاں دیکر پاکستان حاصل کیا گیا آج ویہی پاکستان اپنی بقاء کیلئے قربانی مانگ رہا ہے ، ہم نے سڑکوں پر آنا ہے یا نہیں ؟ آج ہمارے ملک میں وکلاء احتجاج پر ہیں ، میڈیا کے لوگ ، ڈاکٹر ، مزدور احتجاج پر ہیں ، حال ہی میں سترہ ہزار ملازمین کو برطرف کر دیا گیا ، یہ کام ہمارے ایک جج صاحب نے کیا تاہم جج بھی اگر ظلم کا فیصلہ کرے گا تو اس پر احتجا ج ریکارڈ کرانے کا حق رکھتے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ
سیاسی طورپر حکومت کا کوئی جواز نہیں ہے ،معاشی اور امن وامان کے حوالے سے ملک کو کچھ نہیں دے سکی ، اگر پچھلی حکومت نے کچھ دیا تھا وہ بھی بر باد کر دیا ۔ انہوںنے کہاکہ ان عناصر سے ملک کو آزاد کرانا ہے ، دوسر وں کو طعنے دیتے ہو تمہارا احتساب کر نا ہے ، فارن فنڈنگ کیس کامسئلہ کہاں چلا گیا ؟مالم جبہ کا معاملہ کہاں دفن کر دیا ؟ پشاور کی بی آر ٹی کا مسئلہ ، گنڈم سکینڈل کا مسئلہ ، تمہارے خلاف اربوں کھربوں کے سکینڈل سامنے آئے آج کیوں دفن کر دیئے گئے ظاہر ہے
نیب ایک جانبدار ادارہ ہے ایسے ادارہ کو ختم کر دینا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ کہتے ہیں انتخابی اصلاحات دینگے انتخابی اصلاحات وہ دینگے جو دھاندلی سے آئے ہیں ،پھر کہتے ہیں نئی مشین لارہے ہیں پور ی دنیا نے ووٹنگ مشین کو مسترد کیا ہے ،الیکشن کمیشن نے مسترد کیا ہے ،وہ مشین ووٹ کو چوری کر نے میں مہارت رکھتی ہے ،انتخابی اصلاحات کو جوتے کے نوک پررکھتے ہیں تم کون ہوتے ہیں انتخابی اصلاحات دینے والے ؟ تم مسترد شدہ ہو ، تمہاری پالیسیاں ناکام ہیں ، تم نے آئندہ انتخابات بھی
دھاندلی ہی کی سوچی ہوئی ہے ، کسی طرح دھاندلی کر کے پھر آجائیں گے ،تم دوبارہ دھاندلی کے ذریعے آکر دکھائیں ،ہمیں تم نے مذاق بنا لیا ہے ، تم نے قوم کو کھلونا بنا دیا ہے ، ہم بڑے حوصلے سے حالات پر بات کررہے ہیں لیکن حوصلہ کب تک چلے گا ، یہ نو جوان کب تک قابومیں رہے گا ۔ انہوںنے کہاکہ نہ اس ملک میں اسلام کا نظام آیا ، نہ جمہوریت آئی ، نہ خوشحال معیشت آئی اور لوگ سوال اٹھاتے ہیں پاکستان کس کیلئے بنا تھا ؟۔انہوںنے کہاکہ انشاء اللہ اس کی تعبیر تلاش کر نی ہے ، ہماری جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی تعبیر کو انشاء اللہ سامنے لائیں گے ۔انہوں نے کہاکہ اب یہ قافلہ چل پڑا ہے تھمے گا نہیں ان حکمرانوں کو آپ کا سمندر بہا کر لے جائیگا۔