لندن،واشنگٹن(این این آئی )برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو کورونا سے متاثرہ ممالک کی ریڈ لسٹ میں رکھے جانے کی وجوہات سامنے آگئیں ۔میڈیارپورٹس کے مطابق پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھنے پر برطانوی اور پاکستانی حکام نے آن لائن دلائل دیئے۔ذرائع کے مطابق پاکستان نے برطانیہ کو ڈیٹا فراہم نہیں کیا لیکن پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے
کورونا سے متعلق ڈیٹا طلب ہی نہیں کیا، پاکستانی حکومت برطانوی ہائی کمیشن سے ڈیٹا شیئر کرتی رہی ہے اور کورونا سے متعلق ڈیٹا این سی او سی کے ٹوئٹر پر بھی دستیاب ہے۔پاکستانی نژاد برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے برطانوی حکومت کو ریڈ لسٹ سے متعلق خطوط لکھے۔ سربراہ این سی او سی اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان کی برطانوی ارکان پارلیمنٹ سے آن لائن میٹنگ ہوئی۔برطانوی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ فیصل سلطان نے بتایا کہ برٹش ہائی کمشنر سے چار، پانچ ہفتوں سے بات ہی نہیں ہوئی۔ادھر برطانوی محکمہ ٹرانسپورٹ کا موقف ہے کہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ جوائنٹ بائیو سکیورٹی سینٹر کی ہدایت پر کیاگیا۔خیال رہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے کورونا کے اعداد و شمار کا جائزہ لے رہے ہیں۔دوسری جانب کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد اگر ویکسین استعمال نہیں کرتے تو ان میں وائرس سے دوبارہ بیماری کا خطرہ دیگر
کے مقابلے میں دگنا زیادہ ہوسکتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی)کی جانب سے جاری ایک نئی تحقیق میں بتائی گئی۔تحقیق میں بتایا گیا کہ جو افراد کووڈ کا سامنا کرچکے ہوتے ہیں، ان میں ویکسینیشن سے بیماری کے خلاف لڑنے والے مدافعتی خلیات کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوتا ہے۔
سی ڈی سی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر روشیل ولینسکی نے کہا کہ ویکسین کا استعمال آپ کے ساتھ ساتھ ارگرد موجود افراد کے تحفظ کا بہترین ذریعہ ہے، بالخصوص اس وقت جب زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا پھیل رہی ہے۔طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ بیماری کو شکست دینے والے افراد میں دوبارہ بیماری یا سنگین حد تک بیمار ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے، تاہم خون کے نمونوں
کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ بیماری سے ملنے والا تحفظ کورونا کی نئی اقسام کے خلاف نمایاں حد تک گھٹ جاتا ہے۔سی ڈی سی کی تحقیق میں حقیقی دنیا کے شواہد کو پیش کیا گیا۔محققین کی جانب سے اکتوبر سے دسمبر 2020 میں کووڈ سے متاثر ہونے والے کنٹکی کے رہائشیوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ان میں سے 246 میں مئی یا جون میں دوبارہ کی تصدیق ہوئی
جبکہ 492 افراد محفوظ رہے،تحقیق سے معلوم ہوا کہ کووڈ کو شکست دینے والے جن افراد نے ویکسینیشن نہیں کرائی، ان میں ویکسینیشن کرانے والے افراد کے مقابلے میں ری انفیکشن کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ گیا، حالانکہ انہیں بیماری کو شکست دیئے صرف 6 سے 9 ماہ ہی ہوئے تھے۔تحقیق کے مطابق یہ افراد 2020 میں کورونا کی مختلف قسم
سے متاثر ہوئے تھے جبکہ مئی اور جون میں ان کا سامنا کورونا کی ایک اور قسم ایلفا س ہوا۔نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں پیدا ہونے والی مدافعت وائرس کے ارتقا کے سامنے زیادہ مضبوط نہیں ہوتی۔ڈیلٹا قسم سے ری انفیکشن کے حوالے سے ڈیٹا ابھی محدود ہے مگر امریکی طبی حکام نے برطانیہ کے ڈیٹا کے حوالے سے کہا
کہ اس نئی قسم سے دوبارہ بیماری کا خطرہ ایلفا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔امریکی حکومت کے اہم ترین وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاچی کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ویکسینز سے کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد کی مدافعت میں اضافہ ہوجاتا ہے، جس سے وہ وائرس کی اقسام کا بھی مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔سی ڈی سی کی جانب سے کووڈ کو شکست دینے والے افراد کے لیے بھی ویکسین کی دونوں خوراکوں کے استعمال کا مشورہ دیا ۔