اسلامم آباد (مانیٹرنگ ڈیسک /آن لائن)پنجاب یونیورسٹی ٹاون تھری میں 300 کروڑ سےزائد کے گھپلوں کا انکشاف،اینٹی کرپشن کی رپورٹ نے پول کھول دیا۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب یونیورسٹی ٹاون تھری میں مالی بے ضابطگیوں اور غیر قانونی اقدامات کے حوالے سے اینٹی کرپشن کی رپورٹ میں ہولناک انکشافات کیے گئے ہیں۔نجی ٹی وی 24نیوز کے مطابق رپورٹ کےمطابق
پنجاب یونیورسٹی ٹاون تھری میں 300 کروڑ سے زائد گھپلے کئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ٹاون 3 مینجمنٹ کمیٹی نے کمرشل پلاٹس ڈویلپرز کو مفت میں دے دیئے،کمرشل پلاٹس کی فروخت کا فائدہ ممبران کو فراہم نہیں کیا گیا،ٹاون تھری زمین کی خریداری کے پیسے 1001 رجسٹرڈ ممبران نےدیئے۔616 مرلے کمرشل اراضی مینجمنٹ کمیٹی نے فروخت کرنے کااختیار ڈویلپر کو دےدیا۔ڈویلپر 50 ماہ میں رہائشی پلاٹ تیار کرنے کا پابند تھا۔55 ماہ گزرنے کے باجود سکیم کا نقشہ بھی منظور نہ ہو سکا۔ پنجاب یونیوسٹی ٹاون تھر مینجمنٹ کمیٹی نےڈویلپر کو پی یو ٹاون 3 ایکسٹینشن قائم کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ایکسٹینشن پراجیکٹ میں ڈویلپر کو تمام سہولیات استعمال کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔بدلے میں پنجاب یونیورسٹی ٹاون 3 کے ممبران کوئی مالی فائدہ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔پنجاب یونیورسٹی ٹاون 3 ممبران کے 2 ارب روپے ڈویلپرز کو ادا کیے گئے۔ڈویلپر نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 50 ایکڑ زمین تاحال ٹرانسفر نہ کی۔ٹاو¿ن 3 مینجمنٹ کمیٹی کی معاہدے کی خلاف ورزیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ڈویلپرز کی جانب سے پی یو ٹاو¿ن تھری کی رقم کا ذاتی استعمال میں بھی لانے کا انکشاف ہوا ہے۔ رپورٹ میں ڈویلپر کے وقار نعیم کے فرنٹ مین ہونے کے شبہ کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ڈویلپرز اور مینجمنٹ کمیٹی نے 12 ایکڑ اراضی سے 25 فٹ گہری مٹی بھی نکال کر فروخت کردی۔ٹاون 3 کے آغاز پر ممبران کو مہنگی اراضی فروخت کی گئی۔ممبران نے کمرشل زمین کی رقم ممبران میں ہی تقسیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹاون تھری کے ہر ممبر کو 20 لاکھ مارکیٹ ریٹ کے مطابق دیئے جائیں۔دوسری جانب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر نیاز احمد کی ہدایت پر حال ہی یونیورسٹی کی ری سٹرکچرنگ میں آئیونک لیکوئڈذ پر تحقیق کے لئے حال ہی میں قائم کئے گئے
سنٹر فار ریسرچ ان آئیونک لیکوڈزکی ڈائریکٹر ڈاکٹر ملیحہ عروس اور ان کے تحقیقی گروپ نے فصلوں کی باقیات سے غذا بنانے کا نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ اس نئے طریقہ سے بننے والی شوگر کو ادویات، عمومی خوراک اور غذائی پروٹین بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں لکھے گئے مقالے کو امریکن کیمیکل سوسائٹی کے معتبر ترین جرید ے سسٹین ایبل کیمسٹری اینڈ انجینئرنگ اے سی ایس ACS Sustainable Chemistry and Engineering میں شائع کیا گیا ہے، جس کا امپیکٹ فیکٹر 7.64 ہے۔ اس تحقیق کو عملی طور پر ڈاکٹر ملیحہ عروس کے پی ایچ ڈی کے
طالب علم عظمت محمود عاصم نے ممکن بنایا جو کہ امپیریل کالج لندن کے پروفیسر جیسن ہیلٹ اور خیبر میڈیکل کالج کے ڈاکٹرنوشاد محمد کے اشتراک سے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ اس نئے طریقہ میں ماحول دوست مائعات آئیونک لیکوئڈذ کو استعمال کیا گیا ہے۔ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکسان میں فصلوں کی باقیات وسیع پیمانے پر حاصل ہوتی ہیں۔ ان باقیات کو عموما جلادیا جاتا ہے جو کہ سموگ اور دوسری ماحولیاتی آلودگیوں کا باعث بنتا ہے۔ اس اہم ترین مسئلے سے نمٹنے کے لئے ڈاکٹر ملیحہ عروس اور ان کے گروپ نے گندم اور چاول کی باقیات سے خوراک اور ادویات میں قابل استعمال شوگر کو
بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت اور دوسرے عالمی اداروں نے مستقبل میں دنیا میں غذائی قلت کے خطرہ کی نشان دہی کر رکھی ہے۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے جدید طریقوں کی ایجاد ناگزیر ہے۔ اسی چیلنج کو نمٹنے کے لئے ڈاکٹر عروس اوران کے تحقیقی گروپ نے پاکستان میں اس پر کام کا آغازکیا ہے۔ سنٹر فار ریسرچ ان آئیونک لیکوڈز کا تحقیقی گروپ آئیونک لیکوئڈز کے استعمال اور صنعتی اشتراک کی مدد سے ملکی مسائل جیسا کہ غذائی قلت، توانائی کا بحران،
صاف پانی کی عدم دستیابی اور مہنگی درآمدات سے نمٹنے کے لئے کوشش میں مصروف ہے۔ اس تحقیق کے لئے مالی مدد ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فنڈنگ کے دو منصوبوں این آر پی یو اور ٹی ڈی ایف کے ذریعے دی۔اپنے بیان میں ڈاکٹر ملیحہ عروس نے تحقیقاتی ٹیم کو مبارکباد دی اور کہا کہ اس تحقیقی منصوبے کو ممکن بنانے میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر نیاز اختر نے ٹیم کی خصوصی حوصلہ افزائی کی ہے