اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )چیف جسٹس کے کراچی میں واقع نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم کے بعد اس سے لے کر اب تک کوئی ایسا دن نہیں گیا جب اس ٹاور میں رہنے والے رہائشیوں نے احتجاج نہ کیا ہو، اپنے حق میں بات نہ کی ہو۔ اپنے لئے آواز نہ اٹھائی ہو، آخر آواز بھی کیوں نہ اٹھائیں، جبکہ وہ کروڑوں روپے کے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں جس کو
حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لگائی اور اب اگر ان کو اس سے بھی بے گھر کردیا گیا تو یہ بیچارے کہاں جائیں گے؟ ہماری ویب کی رپورٹ کے مطابق ان رہائشیوں کے دکھ درد اور ان کی آواز کو لوگوں کے سامنے دکھا رہی ہے، شاید کسی کا کوئی عمل ان کے لئے متبادل راہ اختیار کر سکے۔ ہم نے کل بھی آپ لوگوں کو نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا اور آج بھی ہم آپ کو نسلہ ٹاور میں رہنے والے شخص کی روداد بتا رہے ہیں۔ ایک معروف صحافی نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ نے جب یہاں اپارٹمنٹ لیا تھا اس وقت کیا آپ نے ساری جانچ پڑتال نہیں کی تھی؟ کیا آپ نے پاکستان بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے مکمل تحریری دستاویزات کو چیک نہیں کیا تھا؟ اس سوال کے جواب میں رہائشی بتاتا ہے کہ: ہم نے فلیٹ لیتے وقت وہ ساری جانچ پڑتال اور دستاویزی معلومات مکمل کی تھی جو کہ فلیٹ خریدنے والا ہر شخص کرتا ہے۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے لے کر ایس پی سی اے
اتھارتی ڈویلپمنٹ کی تمام این او سی ، سوول ایوی ایشن اتھارٹی کے این او سی اور ہر وہ چیز دیکھی گئی جو گھر خریدنے کے لئے دیکھنی چاہیئے اور جس کی ضرورت ہوتی ہے، ہم نے وہ سب دیکھی اور لیں، ان تمام کے اخراجات ادا کئے ہیں اس وقت کہیں نہیں تھا کہ یہ غیر قانونی یا نالے پربنی ہوئی بلڈنگ ہے اور اگر ایسا ہی تھا تو کیوں اس وقت چیف جسٹس
کو خیال نہ آیا؟3 سال لگے اس بلڈنگ کو تیار ہونے میں اور 3 سال سے ہم یہاں رہ رہے ہیں، مکمل 6 سال ہوگئے اب ان کو کیسے خیال آیا؟ اس سے اچھا ہے کہ یہاں ایک قبرستان بنا دیں، یہاں 4 اور 5 کروڑ کے فلیٹس ہیں اور 45 خاندان یہاں آباد ہیں ان سب کو ایک جھٹکے میں ختم کر دیں۔ ہمیں اس کے علاوہ گھر دے دیں، ہم کیا کریں گے ہمارے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم اس جگہ کو نہیں چھوڑیں گے، یوں سسکیوں سے مرنے سے اچھا ہے کہ اپ ایک دفعہ ہی ہمیں مار دیں۔