اسلام آباد (آن لائن)سپریم کورٹ نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے بیرون ملک روانگی کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ بادی النظر میں حکومت نے عدالتی فیصلے کی توہین کی ہے ۔عدالت نے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ سے کیس کا تمام ریکارڈ طلب کر تے ہوئے اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ عدالت عالیہ میں اپیل کب دائر ہوئی، پٹیشن سماعت کیلئے
کب مقرر ہوئی اس سے متعلق تمام ریکارڈ عدالت عظمی کو فراہم کیا جائے۔ عدالت عظمی نے شہباز شریف سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 2 جون تک ملتوی کر دی۔ منگل کے روز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لی ہے، اب وفاق کی اپیل کیسے سنی جا سکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ مسئلہ کسی کے بیرون ملک جانے کا نہیں عدالتی طریقہ کار کا ہے، جس رفتار سے عدالت عالیہ لگی اور حکم پر عملدرآمد کا کہا گیا اس پر تشویش ہے،شہباز شریف کی جانب سے ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوتے ہی سماعت کیلئے مقرر ہوگئی،ہائیکورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کئے بغیر فیصلہ دے دیا
، لاہور ہائی کورٹ میں جمعتہ الوداع کے روز اعتراضات لگے اور اس روز دور بھی ہوئے، لاہور ہائیکورٹ کی مہر کے حساب سے تو عدالت عالیہ میں درخواست دائر بھی اسی دن ہوئی جب حکم دیا گیا،شہباز شریف کی دراخواست پر لاہور ہائی کورٹ کی 7 مئی 2021ء کی مہر لگی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی
اجازت دی ، امیگریشن حکام کی جانب سے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا،بیرون ملک جانے سے روکنے پر شہباز شریف کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی جو بعد میں شہبازشریف نے واپس لے لی، درخواست واپس لینے کے حکم میں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا، شہباز شریف کی
توہین عدالت درخواست زیر التواء ہے ، توہین عدالت کے معاملے پر عدالت عالیہ خاموش رہی،توہین عدالت درخواست کے ذریعے بیرون ملک روانگی کے فیصلے پر عمل کرایا جا سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حکومتی اداروں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف جو اقدام کیا وہ بادی النظر میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی
توہین کی گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہورہائیکورٹ کے حکم کی توہین ہوئی یا نہیں، شہباز شریف رکن پارلیمان اور اپوزیشن لیڈر ہیں، تمام اراکین اسمبلی کا احترام ہے ، کیا شہباز شریف کو کوئی میڈیکل ایمرجنسی تھی جو اتنی جلدی سماعت ہوئی؟ اتنی جلدی میں سارا کام کیسے ہو سکتا ہے، کیا شہباز شریف کو کوئی میڈیکل ایمرجنسی تھی جو اتنی جلدی
سماعت ہوئی، حیرت ہے کہ ہائیکورٹ نے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ کیسے دیدیا، انتہائی ارجنٹ درخواست پر چیف جسٹس کی باقاعدہ تحریر ہوتی ہے۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ شہباز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت مسترد ہوئی تھی، ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ شہباز شریف کو میڈیکل ایمرجنسی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے تو وفاق کا موقف
بھی نہیں سنا،عدالت عالیہ کی جانب سے یکطرفہ حکم دے کر عملدرآمد کیلئے زور بھی دیا گیا،شہباز شریف نے کہا کہ ان کا نام ای سی ایل میں نہیں بلکہ بلیک لسٹ میں ہے،ہائیکورٹ میں وفاق کا موقف سنا جاتا تو آگاہ کر دیتے کہ شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ میں نہیں ہے،شہباز شریف کا نام اب ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے۔