اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)عمران حکومت کے بھارت سے چینی اور دیگر ضروریات کی خریداری کرنے کی تجویز اور ایک ہی روز بعد کابینہ کی جانب سے ملتوی یا مسترد کرنے کے اقدام نے عمران حکومت کے حامی اور مخالفین عالمی حلقوں کو یکساں طور پر مایوس کیا ہے، پاک بھارت تجارت اور تعلقات کو بہتر دیکھنے کے خواہش مند عالمی حلقے
اس حکومتی کنفیوژن پر حیران ہیں۔ جبکہ بعض حلقے اسے حکومتی کمزوری اور غیر دانش مندی سے تعبیر کررہے ہیں چونکہ پڑوسی ملک بھارت سے تعلقات میں قومی سیکورٹی کے تقاضوں کا پہلو بھی سب سے زیادہ اہم ہے لہذا اگر بھارت سے چینی اور دیگر اشیا کی خریداری کی سرکاری تجویز کا آغاز کسی بھی سطح پر ہوا تھا تو اس کا اعلان کرنے سے قبل مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، پاک بھارت تعلقات کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اس تجویز کی سیکورٹی کلیئرنس اور اس تجویز کو خفیہ رکھنا ضروری تھا۔ روزنامہ جنگ میں عظیم ایم میاں کی شائع خبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان اس تجویز کی تفصیلات سے آگاہ تھے اسی لئے اس کا اعلان کرکے پاک بھارت مصالحت کے عالمی حلقوں اور بھارت نواز حلقوں کوایک خوشگوار پیغام دیا گیا، پھر نا معلوم وجوہات کی بنا پر دوسرے ہی روز کابینہ کے ہاتھوں اسے ملتوی یا مسترد کرواکر ناخوشگوار پیغام دینے سے حکومتی کمزوری کا اظہار کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایک
پاکستان دوست ملک کے سفارتکار نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے نام نہ دینے کی شرط پر بتایا کہ پہلے روز کی خبر نے انہیں حیران کردیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر احتجاجی اور مذمتی بیان جاری کرنے والی عمران حکومت نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی
کے ایک خط اور وزیراعظم عمران کی کورونا سے صحت یابی کے پیغام نے خوشی سے سرشار عمران حکومت کو اتنے بڑے اقدام پرمائل کردیا ہے یا پھر بیک گرائونڈ میں ہونے والی پاک بھارت بات چیت کے نتیجے میں کسی بھارتی مطالبے کی تعمیل کی گئی ہے؟ اور پھر دوسرے
ہی روز اس تجویز کو ملتوی کرنے کیلئے کابینہ سے مسترد کردیا گیا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی شخصیت اور وزرا پر اس قدر مضبوط گرفت ہے کہ جس تجویز کو وزیراعظم نے دیکھ لیا ہو اور منظوری دیدی ہو اس تجویز کو کابینہ مسترد کرنے یا ملتوی
کرنے کی جسارت بھی نہیں کرسکتی۔ حکومت کے اس فیصلے سے البتہ ان حلقوں کو ضرور خوشی حاصل ہوئی جو پاکستان کی معیشت، داخلی عدم استحکام اور طالبان، امریکا معاہدے کی ناکامی کے اثرات کے تناظر میں یہ لابنگ کررہے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو عالمی نگرانی
میں دیدیا جائے اور پاکستانی حکومت سے ساورن گارنٹی بھی حاصل کی جائے، اس حکومتی کنفیوژن، عدم استحکام اور ایک ہی روز بعد فیصلے تبدیل کرنے اور اپنی ہی تجویز کو خود ہی مسترد کرنے اور عوامی اعلانات سے عالمی سطح پر عمران حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ حکومت اگر عوامی اعلانات کی بجائے خاموشی سے سیکورٹی کے تقاضوں اور پاک بھارت تعلقات کی نوعیت کاجائزہ لیتی تو اس کے حق میں بہتر ہوتا۔