کابل (این این آئی) ایران کی سرحد کے قریب ضلع نیمرز میں افغان صدر اشرف غنی نے کمال خان ڈیم کا افتتاح کردیا۔ یہ افتتاح ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دوسری طرف ایران اور افغانستان کے درمیان آبی وسائل کا تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ آج کے بعد ہم ایران کو تیل کے بدلے میں پانی دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ چار سال قبل 48 ملین ڈالر مالیت سے تیار ہونے والے ڈیم سے کسی پڑوسی ملک کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صدیوں سے ہلمند کا پانی افغانستان سے نکلتا ہے مگر آج افغانیوں نے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ایران اور افغانستان کے درمیان پانی کے مسئلے پر طے پائے معاہدے کے تحت بھی ہم اس پانی کو استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔خیال رہے کہ ایران اور افغانستان کے درمیان کئی دریائوں کے پانی پر دعوے کیے جاتے ہیں۔ ایران سے نکلنے والے متعدد دریا عراق میںگرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تہران اور بغداد کے درمیان بھی تنازع موجود ہے اسی طرح افغانستان سے پھوٹنے والے دریا ایران میں گرتے ہیں اور ان دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان بھی تنازعات ہیں۔دوسری جانب افغان طالبان نے صدراشرف غنی کی اس سال کے آخر میں نئے انتخابات کرانے کی تجویز مسترد کردی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق صدر اشرف غنی نے قبل ازوقت انتخابات کرانے سے متعلق اپنی تجویز کی تفصیل جاری نہیں کی البتہ افغان حکومت کے دوعہدے داروں کا کہنا تھا کہ وہ آیندہ ماہ ترکی میں افغان مسئلہ کے فریقوں کی کانفرنس کے موقع پراپنے الیکشن منصوبہ کا اعلان کریں گے۔اشرف غنی نے اپنی اس نئی تجویز کے ذریعے دراصل امریکا کے پہلے سے پیش کردہ مجوزہ منصوبے کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے۔امریکا نے افغانستان سے تمام غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد ایک عبوری حکومت کے قیام کی تجویز پیش کی تھی جس میں طالبان کے بھی نمایندے شامل ہوں۔روس نے بھی اس تجویز کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔افغانستان کے ایک سینئر عہدہ دار نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت قبل ازانتخابات کے ایک منصوبہ کے ساتھ ترکی جائے گی۔یہ افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک منصفانہ پلان ہے۔لیکن طالبان نے صدر اشرف غنی کی اس تجویز کو فوری طور پر مسترد کردیا۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ماضی میں اس طرح کے عملوں (انتخابات)سے ملک مختلف بحرانوں کے کنارے جا کھڑا ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ اب وہ ایک ایسے عمل کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں جو ہمیشہ سے اسکینڈل پر مبنی رہا ہے۔ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ دونوں فریقوں کے درمیان دوحہ میں جاری مذاکرات میں ہونا چاہیے۔ہم ایسے انتخابات کی حمایت نہیں کریں گے۔امریکا، روس اور تنازع دوسرے فریق افغانستان میں ایک عبوری حکومت کا قیام چاہتے ہیں جبکہ صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اقتدارایک منتخب حکومت ہی کے حوالے ہونا چاہیے،اس لیے وہ نئے انتخابات پر زوردے رہے ہیں۔دوسری جانب طالبان کے شریک بانی اور ڈپٹی لیڈر ملا عبدالغنی برادر نے گذشتہ ہفتے ماسکو میں منعقدہ ایک کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خودکرنے دیا جائے۔امریکا طالبان کے ساتھ گذشتہ سال فروری میں دوحہ میں طے شدہ سمجھوتے کے تحت افغانستان سے یکم مئی تک اپنے تمام فوجیوں کو بلانے کا پابند ہے۔تاہم صدر جو بائیڈن نے اسی ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ اس ڈیڈلائن پر پورا اترنا مشکل نظرآرہا ہے۔اس سمجھوتے کے تحت افغان حکومت اور طالبان گذشتہ سال ستمبر سے دوحہ میں مذاکرات کررہے ہیں۔ان میں مستقبل میں ملک کانظم ونسق چلانے کے لیے نظام وضع کیا جائے گا لیکن ابھی تک اس بات چیت میں اس ضمن میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔طالبان کے مذکورہ ردعمل سے چندے قبل ہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے نیٹو کے ایک اجلاس میں بتایا ہے کہ واشنگٹن ابھی اس امرپر غور کررہا ہے کہ آیا اس کے فوجیوں کو یکم مئی کی ڈیڈلائن سے قبل جنگ زدہ ملک سے واپس بلا لیا جائے یا نہیں۔