اسلام آباد،نئی دلی(این این آئی)سویڈن میں قائم ایک انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ریسرچ میں کہا ہے کہ بھارت اب انتخابی جمہوریت نہیں رہاہے بلکہ انتخابی آمریت میں تبدیل ہو گیا ہے اور 2014میں بی جے پی اور نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارت کا جمہوری آزادیوں کا ڈھانچہ کافی کمزور ہوا ہے اور اب یہ آمریت کی حالت میں ہے۔کشمیرمیڈیاسروس
کے مطابق گوتھن برگ یونیورسٹی میں واقع ایک آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ وی ڈیم (V-Dem) نے 2017سے بڑے پیمانے پر اعدادوشمار کا تجزیہ کرنے کے بعد رپورٹیں جاری کی ہیں۔انسٹی ٹیوٹ نے اپنی سابقہ رپورٹ میں کہا تھاکہ بھارت اپنی جمہوریت کا درجہ کھونے کے قریب ہے۔انسٹی ٹیوٹ کی رواں سال کی رپور ٹ میں اس خدشے کی تصدیق کی گئی ہے کہ بھارت 2019سے ایک انتخابی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال خاطر خواہ اعدادوشمار نہیں مل پائے تھے تاہم رواں سال اعدادوشمار کی بنیاد اب پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بھارت انتخابی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارت آمریت کی تیسری لہرکی قیادت والے ممالک میں شامل ہے۔ اس وقت دنیا کی 68 فیصدی عوام آمریت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔وی ڈیم نے کہا کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی دو ارب ساٹھ کروڑ والے 25ممالک پرآمرانہ تسلط قائم ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ کا ایک مکمل باب بھارت کے بارے میں ہے جس میں کہا
گیا ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت اب انتخابی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ملک میں دھیرے دھیرے میڈیا، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کی آزادی کو چھینا جا رہا ہے۔سویڈش رپورٹ میں کہا گیاکہ 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی جیت اور
ہندو انتہا پسندوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے بعد سے ہی بھارت کی درجہ بندی میں تیزی سے کمی آئی ہے۔گزشتہ سال کے آخرتک بھارت کی جمہوریت کا نمبر 0.34 تھا جبکہ 2013 میں یہ 0.57 پر تھا۔ اس طرح لبرل ڈیموکریسی انڈیکس میں 23 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
وی ڈیم نے کہا کہ بھارتی حکومت کی طر ف سے میڈیا کی سینسرشپ، سول سوسائٹی کا استحصال اورالیکشن کمیشن کی خودمختاریت میں کمی کی وجہ سے بھارت اس حالت پر پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں میڈیا بہت زیادہ جانبدار ہے اور اکیڈم اورمذہبی آزادی میں کمی آئی ہے۔