اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اتنی ہی ملنی چاہئیں اور کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹنگ بے شک خفیہ ہو لیکن سیٹیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی بنتی ہیں، ملک کی قسمت الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کو سمجھے،کل مسلم لیگ(ن ) کے
وکیل کو سنیں گے ، بار کو صرف عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی پر سنیں گے، کوئی سیاسی بات نہیں سنی جائے گی۔ سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کی ۔اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ عدالت ووٹ طلب کر سکتی ہے لیکن یہ تعین نہیں ہو سکے گا کہ اسکا ووٹ کونسا ہے،سینیٹ ووٹ کی خریدوفروخت والی وڈیو سامنے آنے کے بعد ووٹ خریدنے کا طریقہ کار بھی بدل دیا گیا ہے،اب کمیشن ایجنٹ سامنے آ گئے ہیں جو ووٹر کو سامنے لانے کی بجائے رقم دوبئی یا کہیں بھی پہنچا دیتے ہیں اور اپنی کمیشن لے لیتے ہیں،بار کوڈ لگانے سے ووٹر کی شناخت بھی خفیہ رہے گی،اس بارکوڈ کا الیکشن کمیشن کے علاوہ دنیا میں کسی کو کوئی علم نہیں ہوگا،بیلٹ پیپر اصلی ہے یا نقلی اس کا کیسے پتا چلایا جاتا ہے؟بیلٹ پیپر پر بھی پرنٹنگ کے دوران حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہوں گے،ووٹ اگر چوری ہو تو الیکشن کمیشن کارروائی کرسکتاہے،سیکریسی کا اصل مقصد شفافیت کو برقرار رکھنا ہے،لوگ اسلام آباد میں پیسوں سے بھرے بیگز کے ساتھ بیٹھے ہیں،سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے،اگر کسی نے قتل کے پیسے لیے اور قتل نہیں کیا تو وہ خود قتل ہوجاتا ہے،ووٹ کے لیے جو پیسے لیتا ہے اسے وہ اپنا کام پورا کرنا ہوتا ہے،الیکشن خفیہ کا مطلب بیلٹ پیپر خفیہ ہونا ہے،سیکریسی پولنگ کے دن کی ہوتی ہے،عدالت جیسے جدید ٹکنالوجی استعمال کررہی ہے الیکشن کمیشن بھی ایسا کرسکتا ہے،الیکشن کمشن مخصوص بار کوڈ بیلٹ پیپز پر دے سکتا ہے،اس بار کوڈ سے صرف الیکشن کمشن ہی ووٹ کی شناخت کرسکے گا،ووٹ کو خریداری کے لئے منشیات اور دیگر طریقوں سے کمایا گیا پیسہ استعمال ہو رہا ہے،اب تو ایجنٹس خود ایک فریق سے پیسہ لیکر دوسرے فریق کو پہنچا دیتے ہیں،دبئی پیسے بھیجنے کیلئے کمیشن ایجنٹس نے
زیادہ ریٹ طے کر رکھا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ ووٹ چوری نہیں ہونے دینا، الیکشن کمیشن کہتا ہے چوری ہونے کے بعد کارروائی کرینگے، سیاسی جماعتوں کو تناسب سے کم سیٹیں ملیں تو قانون سازی کیسے ہوگی، منشیات اور دو نمبر کی کمائی ووٹوں کی خریداری میں استعمال ہوتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو نیند سے جاگنا ہوگا،
تمام ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کی بات کے پابند ہیں، بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ یا سریل نمبر لکھا جا سکتا ہے، کاوئنٹر فائل اور بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ ہو تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوگی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید کے دلائل مکمل ہوگئے۔چیف الیکشن کمشنر نے ایک موقع پر بتایا کہ عدالت عظمیٰ کے تحفظات ختم کرنے کے لئے ای سی پی کے اختیارات میں اضافہ کی ضرورت ہے جس کے لئے
ترمیم کرنی پڑے گی۔وکیل کے پی نے ایک موقع پر موقف اپنایا کہ سو فیصد ووٹ کی رازداری کا کوئی تصور نہیں۔صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل،الیکشن کمیشن کے وکیل اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ہیں۔بعد ازاں کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی گئی ہے ،کیس کا فیصلہ آج محفوظ ہونے کا امکان ہے ۔