اسلام آباد (این این آئی) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ حملے کے روز جو یہاں آئے سب وکیل تھے ،باہر سے کوئی نہیں تھا ،آدھے سے زائدکو میں جانتا ہوں، ہم پروکلاء بحالی تحریک کے 90 شہدا کا قرض ہے، احتجاج کی ضرورت نہیں تھی،تحقیقات کیلئے پولیس کے سینئر افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائیگی۔ہفتہ کو چیف جسٹس اسلام آباد
ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہائیکورٹ حملے کے بعد وکلاکی پکڑ دھکڑ اور ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور نہ ہی ہائی کورٹ پر حملے کے واقعے کو کسی صورت نظر انداز کیا جائے گا، آپ سب کو پتہ ہے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے یہاں حملہ کیا، جو یہاں آئے تھے وہ سب وکیل تھے، باہر سے کوئی نہیں تھا آدھے سے زائد کو میں جانتا ہوں، جو مارچ لے کر آئے، وکلا کو مشتعل کیا اور جنہوں نے حملہ کیا سب اس میں شامل ہیں، میں نے خط لکھا ہے اب ریگولیٹر کی جانب دیکھ رہے ہیں وہ کیا کرتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا دونوں بارکے صدورکوکہا تھا وہ یہاں آجائیں لیکن وہ یہاں نہیں آئے، جنہوں نے تقاریرکیں، جنہوں نے انہیں ابھارا، ان کی نشاندہی بار کرے۔انہوں نے کہاکہ ہم پروکلاء بحالی تحریک کے 90 شہدا کاقرض ہے، احتجاج کی ضرورت نہیں تھی،جب سے چیف جسٹس بنا ہوں تب سے کچہری کیلئے کام کر رہا ہوں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 70 سال سے کچہری کیلئے کچھ نہیں ہوا ،موجودہ حکومت نے ضلعی عدلیہ کی منتقلی کے لئے تیز تر انداز میں کام کیا ہے، اس حکومت نے پی ایس ڈی پیسے کچہری منتقلی فنڈز کی منظوری دی ہے، کام شروع ہونیوالا ہے، ہم توقانون ہی کاراستہ اختیارکرسکتے ہیں، حکومت ڈسٹرکٹ کمپلیکس پرکام کر رہی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ڈسٹرکٹ کورٹس کی منتقلی میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے ، اسسلسلے میں کنسلٹنٹ بھی ہائیر کیا جا چکا ہے، موجودہ حکومت خاص طور پر وزیراعظم اور وفاقی کابینہ تعریف کے قابل ہیں۔ ہائی کورٹ نے چیف کمشنر کو حکم دیا کہ وہ بار کو تحریری آگاہ کریں ڈسٹرکٹ کورٹس منتقلی کا کام کہاں تک پہنچا۔سماعت کے دوران اسلام آباد پولیس کیجانب سے جے آئی ٹی بنانے کی تجویز دی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا پولیس کے سینئر افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے جو ملوث وکلاء بالکل واضح ہیں ان کو پولیس پکڑے اور قانون نے مطابق کارروائی کرے اس معاملے پر جو مشتبہ تھے ان سے متعلق جے آئی ٹی بار سے پوچھ لے، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اور ہائی کورٹ کے صدور ملوث وکلا کی نشاندہی کریں۔