آپ اگر موجودہ سیاسی حالات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو دو شخصیات اور مضبوط ترین ادارے کا تجزیہ کرنا ہو گا‘ پہلی شخصیت عمران خان ہیں‘ عمران خان کے تین پہلو ہیں‘ یہ فاسٹ بائولر ہیں‘ عمران خان نے 20سال صرف بائولنگ کرائی اور بائولنگ بھی تیز ترین چناں چہ یہ فاسٹ بائولنگ ان کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہے‘ یہ جب بھی کسی شخص کو کریز پر دیکھتے ہیں‘
ان کے اندر کا فاسٹ بائولر جاگ جاتا ہے اور ان کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے کریز پر کھڑے شخص کو آئوٹ کرنا اور یہ پھر دشمن کو کریز پر نہیں رہنے دیتے‘ دوسرا پہلو‘ عمران خان ’’گیو اپ‘‘ نہیں کرتے‘ یہ شخص پوری زندگی پیچھے نہیں ہٹا‘ لوگوں نے کہا ’’تم کرکٹ نہیں کھیل سکتے‘تم اچھے کپتان نہیں بن سکتے‘پاکستان ورلڈ کپ نہیں جیت سکتا‘ملک میں کینسر ہسپتال نہیں بن سکتا‘ ملک میں انٹرنیشنل یونیورسٹی نہیں بن سکتی‘تم سیاسی جماعت نہیں بنا سکتے اور وزیراعظم نہیں بن سکتے‘‘ لیکن یہ شخص کرکٹر بھی بنا‘ کپتان بھی‘ ہسپتال بھی بنایا اور یونیورسٹی بھی اور یہ دنیا میں پہلا کرکٹر وزیراعظم بھی بنا لہٰذا ہمیں ان کی مستقل مزاجی اور گیو اپ نہ کرنے کی لامتناہی صلاحیت کو تسلیم کرنا ہوگا اور ان کی شخصیت کا تیسرا پہلو سٹارڈم ہے‘ یہ شخص پچاس سال ورلڈ سٹار رہا‘ دنیا کا کون سا حصہ ہے جس میں اس کے عاشق اور معشوقائیں نہیں ہیں‘ یہ دنیا کی مشہور ترین اداکارائوں اور شہزادیوں کے ساتھ واکس اور ڈنر کرتے رہے‘ دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینلز اور صحافیوں نے ان کے انٹرویوز کیے اور پوری زندگی اپنی مرضی کی شادیاں بھی کیں لیکن یہ سٹار ڈم آج بدقسمتی سے انہیں ’’سٹیٹ مین‘‘ نہیں بننے دے رہا‘ عمران خان پوری زندگی بولتے رہے ہیں اور دنیا ان کو سنتی رہی چناں چہ آج ان میں دوسروں کو سننے کی اہلیت کم ہو گئی ہے جب کہ سٹیٹس مین شپ میں آپ نے دوسروں کو سننا ہوتا ہے‘ ملک چلانا ایک مشکل اور حساس کام ہے اور آپ خواہ بقراط یا چنگیز خان ہی کیوں نہ ہوں آپ کو یہ کام سیکھنا پڑتا ہے‘ طاقت ایٹم بم کی طرح ہوتی ہے‘ آپ نے اسے ’’لمٹ‘‘ میں رکھنا ہوتا ہے‘ آپ اگر ایٹم بم ہی استعمال کر دیں گے تو پھر دوسروں کے ساتھ ساتھ آپ بھی چلے جائیں گے لہٰذا آپ جب تک طاقت کا استعمال نہ سیکھ لیں‘ آپ کو جب تک اپنی ہاں اور ناں کے نتیجے کاعلم نہ ہو جائے
آپ اس وقت تک سٹیٹس مین نہیں بنتے اور عمران خان کا سٹارڈم انہیں فن ریاست نہیں سیکھنے دے رہا لہٰذا آپ یاد رکھیں یہ فاسٹ بائولر ہیں‘ یہ اپنے کسی مخالف کو نہیں چھوڑیں گے‘یہ ان کی قبروں پر بال پھینکتے رہیں گے‘ یہ گیواپ بھی نہیں کریں گے خواہ ملک رہے یا نہ رہے اور یہ جب تک سٹارڈم سے باہر نہیں نکلیں گے‘ یہ حکومت کاری نہیں سیکھ سکیں گے اور یہ جب تک سیکھیں گے نہیں
یہ اس وقت تک غلط فیصلے کرتے چلے جائیں گے اور ان فیصلوں کا نتیجہ پورا ملک بھگتے گا اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں یہ چیمپیئن کپتان ہیں اور چیمپیئن کپتان صرف ایک ہی ہوتا ہے لہٰذا عمران خان کے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگوں کو جلد یا بدیر جہانگیر ترین بننا پڑے گا‘ یہ جب بھی ٹیک آف کریں گے یہ کسی دوسرے کو اس کا کریڈٹ نہیں لینے دیں گے۔ہم اب میاں نواز شریف کی طرف آتے ہیں‘ میاں نواز شریف میں تین حیران کن خوبیاں اور تین خوف ناک خامیاں ہیں‘ ہم پہلے خوبیوں کی بات کرتے ہیں‘
یہ پروڈویلپمنٹ ہیں‘ پاکستان کی تاریخ میں تمام بڑے منصوبے ایوب خان کے دور میں شروع ہوئے یا پھر میاں نواز شریف کے زمانے میں سٹارٹ ہوئے‘ آپ موٹروے سے لے کر سی پیک تک تمام بڑی فائلیں کھول لیں‘ آپ کو اس میں نواز شریف ملیں گے‘ آپ آج بھی نواز شریف کو لے آئیں آپ کو دو ماہ میں ڈوبتی معیشت تیرتی نظر آئے گی‘ دوسرا میاں نواز شریف میں سیکھنے کی اہلیت ہے‘ آپ 1985ء کا
نواز شریف دیکھ لیں اور 2018ء کا نواز شریف دیکھ لیں‘ یہ سٹیٹ کرافٹ میں زیرو تھے لیکن انہوں نے حکومت کاری بھی سیکھی اور بڑے بڑے مہروں کو مات بھی دی اور تیسری خوبی یہ اللہ تعالیٰ سے کوئی خصوصی مقدر لے کر آئے ہیں‘ آپ کو پوری دنیا میں نواز شریف جتنا خوش نصیب سیاست دان نہیں ملے گا‘ 1985ء میں سیاست میں آنا اور پھر خوف ناک مخالفتوں کے باوجود تین بار وزیراعظم بن جانا اور پھر جیلوں سے نکل کر جہازوں پر بیٹھ کر ملک سے باہر چلے جانا اور پھر واپس آنا اور آتے ہی
پروٹوکول کے ساتھ ایوان اقتدار میں پہنچ جانا‘ قدرت یہ خوش نصیبی بہت کم لوگوں کو عطا کرتی ہے‘ اللہ کو شاید ان کی سادگی‘ عاجزی اور شائستگی پسند ہے‘ ان تینوں خوبیوں کے ساتھ ان میں تین خامیاں بھی ہیں اور یہ جب تک ان خامیوں کو ’’اپنڈیکس‘‘ کی طرح کاٹ کر باہر نہیں پھینکتے یہ اس وقت تک اسی طرح سیاسی گرداب میں پھنسے رہیں گے‘ ان کی پہلی خامی خاندان ہے‘ یہ اقتدار کو اپنے خاندان تک رکھنا چاہتے ہیں‘ یہ آج بھی اپنے خاندان کے لیے ’’بارگین‘‘ کر رہے ہیں‘ اس خامی نے پارٹی میں
چودہ لیڈر اور چودہ ہی بیانیے پیدا کر دیے ہیں اور پارٹی کو سمجھ نہیں آ رہی اس نے کس کی پیروی کرنی ہے اور شریف خاندان کے کس فرد کے ساتھ تعلقات استوار کرنے ہیں‘ یہ بے چارے میاں نواز شریف سے لے کر جنید صفدر تک سب کو خوش رکھ رکھ کر تھک گئے ہیں‘ میرا دعویٰ ہے میاں نواز شریف آج اپنے پورے خاندان کو سیاست سے نکال دیں اور یہ اعلان کر دیں میں صدر بنوں گا
اور نہ وزیراعظم اور نہ میرے خاندان کے کسی شخص کا سیاست سے تعلق ہو گا اور یہ اس کے بعد پارٹی کے چیئرمین بن جائیں اور پارٹی کو حکومت کرنے کا موقع دے دیں‘ آپ یقین کریں یہ شخص ملک کا مقدر بدل کر رکھ دے گا لیکن بدقسمتی سے نواز شریف سیاست میں جو بھی مہرہ کھیلتے ہیں یہ اپنے آپ اور اپنے خاندان کو سامنے رکھ کر کھیلتے ہیں اور ان کی اس کم زوری کی سزا ملک اور خاندان دونوں بھگت رہے ہیں‘ مولانا فضل الرحمن نواز شریف کی اس اپروچ کے تازہ ترین شکار ہیں‘ میاں صاحب کی
للکار اور پھر خاموشی نے مولانا کو گرداب میں پھنسا دیا ہے چناں چہ پی ڈی ایم اگر سینیٹ کے الیکشنز تک حکومت نہیں گرا پاتی تو حکومت مارچ تک مولانا پر کریک ڈائون کر دے گی اوریہ بھی میاں شہباز شریف کی طرح اپنے خاندان سے نیب عدالت میں ملاقات کیا کریں گے اور اس کے ذمے دار نواز شریف ہوں گے‘ دوسرا میاں نواز شریف میں بے انتہا ضد ہے‘ فوج کے ساتھ ان کی دوریاں 1992ء میں شروع ہوئیں‘ یہ اس وقت سے بار بار مار کھاتے آ رہے ہیں اور ہر بار واپس آ کر دوبارہ کیلے کے
چھلکے پر پائوں رکھ دیتے ہیں‘ فوج ملک کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور آپ جب تک اس حقیقت کو حقیقت نہیں مانتے آپ ملک میں حکومت نہیں کر سکتے مگر میاں صاحب بار بار یہ حقیقت فراموش کر بیٹھتے ہیں‘ یہ ہر بار دوچار بڑے کارنامے سرانجام دینے کے بعد پاور سیکٹر کے اعصاب کا جائزہ لینا شروع کر دیتے ہیں اور تیسری خامی میاں نواز شریف آج تک لڑائی یا صلح کا فیصلہ نہیں کر سکے ‘یہ ایک طرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہیں اور دوسری طرف لندن جا کر بیٹھ جاتے ہیں‘
یہ ’’اب مذاکرات نہیں ہوں گے‘‘ کا اعلان بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف مذاکرات بھی جاری رہتے ہیں‘ شاہد خاقان عباسی پیغام لے کر جاتے ہیں اور پیغام لے کر واپس آتے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ جب تک لڑائی یا صلح کا فیصلہ نہیں کرتے یہ اسی طرح گرداب میں پھنسے رہیں گے ۔اور ہم اب آتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف‘ آپ یہ یاد رکھیں ملک میں صرف ایک ہی بائینڈنگ فورس ہے اور وہ ہے فوج‘ یہ جب تک موجود ہے یہ ملک اس وقت تک قائم ہے‘ یہ دھاگا جس دن ٹوٹ گیا اس دن تسبیح کے سارے منکے بکھر جائیں گے
اورپھر نواز شریف اور عمران خان دونوں کا انتقال لندن میں ہو گا‘ میں بار بار عرض کرتا ہوں یہ ملک فوج کے بغیر بچ نہیں سکتا اور جمہوریت کے بغیر چل نہیں سکتا چناں چہ سیاست دانوں اور فوج دونوں کو کھلے دل کے ساتھ اکٹھے بیٹھنا ہو گا‘ آپ ایک دوسرے کے دشمن رہ کر یہ ملک بچا سکیں گے اور نہ چلا سکیں گے‘ آج پاکستان کا جہاز ضبط ہو گیا اور ایک شخص کی نااہلی سے پورے ملک کی بجلی بند ہو گئی‘ کل ملک کی ہر چلتی ہوئی چیز بند ہو جائے گی اور ہمارا ہر اثاثہ ضبط کر لیا جائے گا
اور ہم اگر باہر ہیں تو ہم اندر نہیں آ سکیں گے اور ہم اگر اندر ہیں تو ہم باہر نہیں جا سکیں گے‘ پوری دنیا ہم سے نفرت کرتی ہے‘ صرف جوتے کھانے باقی ہیں اور یہ بھی کسی دن ہو جائے گا اور ہم ایک دوسرے پر الزام لگا کر سو جائیں گے چناں چہ ہوش کریں‘ آنکھیں کھولیں‘ جو بائیڈن امریکا کی تاریخ میں پہلی بار 16 بھارتی ایڈوائزرز کے ساتھ اقتدار میں آ رہا ہے
اور اس کی کابینہ میں وہ سارے لوگ شامل ہیں جو صلالہ سے لے کر ریمنڈ ڈیوس اور ایبٹ آباد آپریشن سے ایف اے ٹی ایف تک مسلسل پاکستان کے بازو مروڑتے رہے ہیں لہٰذا ہمارے فاسٹ بائولر کی ایک غلط گیند ہماری ساری وکٹیں اڑا دے گی چناں چہ آپ ایک بار! جی ہاں ایک بار کھلے دل کے ساتھ پاکستانی بن کر اکٹھے بیٹھ جائیں‘ ملک کا کوئی لانگ ٹرم پیکج بنا لیں اور گاڑی کو کیچڑ سے باہر نکال لیں ورنہ ہم ورنہ کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔