لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک /این این آئی)وزیر ریلوے اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ اگراپوزیشن ارکان استعفے دیں تو میں ڈی چوک پرمٹن کے گوشت کی 100 دیگیں تقسیم کروں گا اور سینیٹ کے چیئرمین سے ان کے استعفے منظور کرواؤں گا۔ وفاقی وزیر ریلوے اعظم خان سواتی نے کہا ہے کہ جس دن اپوزیشن استعفے دے گی اسی دن منظور کر لیں گے،اعلان کر رہا ہوں جس دن اپوزیشن استعفے دے گی
ختم دلاؤں گااور سینیٹ مٹن اور بریانی کی دیگیں بھی بنواؤں گا،جس طرح میں نے امریکہ میں دیوالیہ ہونے والی کمپنیوں کو اٹھایا ہے اسی طرح پاکستان ریلوے بھی بدنامی کی بجائے خوش بختی اور ٹریڈ مارک کے طور پر سامنے آئے گا،فنانشل اور بزنس ماڈل دیکھا ہے،ریلوے میں اربوں روپے کا نقصان ہے،ہمارے اندر جس کام کی استعداد نہیں ہو گی اسے آؤٹ سورس کریں گے، کوشش ہے کہ ٹریک بھی لیز پر دئیے جائیں،میری کوئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہیں ہیں اس لئے ریلوے کی اراضی پر تجاوزات اور قبضہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا، اگر کوئی ادارہ منافع میں ہو بھی تو مزید منافع کے لئے اسے پبلک پرائیویٹ ماڈل کے طور پر چلایا جا سکتا ہے، انسانی جان کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اس لئے ان مینڈ کراسنگ کے حوالے سے تمام صوبائی حکومتوں کو خطوط ارسال کر دئیے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ریلوے ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اعظم خان سواتی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی ریلوے کی پالیسی کو عوام تک پہنچائیں گے،ریلوے کی وزارت چیلنج ہے لیکن میں نے اسے قبول کیا ہے، شیخ رشید نے جس طریقے سے کام کیا میں ان کی جگہ نہیں لے سکتا،میڈیا ریاست کا بہت بڑا ستون ہے،میری اور ادارے کی غفلت اور کردار کی نشاندہی نہیں ہوگی تو تباہ حال ریلوے بہتر نہیں ہو سکے گا۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلی ترجیح انسانی جان کی حفاظت ہے
اور اس پر کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی، ہم ایک جان کو بچانے کے لئے اپنے تمام وسائل بھی خرچ کریں تو کم ہوں گے۔ میں نے ان مینڈ ریلوے کراسنگ کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کو خطوط ارسال کر دئیے ہیں،اگر صوبائی حکومتیں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کریں گی تو وہ کل قانونی اور اخلاقی طو ر پرذمہ داری ہوں گی۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں انسانوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ریلوے کے بزنس اور فنانشل پلان دیکھا ہے، ہیومن ریسورس کے حوالے سے مسائل ہیں، ہم آٹو میشن کے ذریعے کیپسٹی بلڈنگ کریں گے تاکہ ریلوے کو بہتر کر سکیں، میں کسی کو ریلوے سے نکالنے نہیں آیا بلکہ ہم سکلڈ ماڈل کو مد نظر رکھتے ہوئے کیپسٹی بلڈنگ کریں گے، اس کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ہم یقینا اکیلے کچھ نہیں کر سکتے۔
بہت ساری چیزیں ہیں جنہیں حکومت نہیں کر سکتی، ہم سے جو نہیں ہو سکتا ہم پرائیویٹ شعبے،انٹر پرینیو اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو دیں گے جس کا مقصد مسافروں کے لئے صاف ماحول اور بروقت سفر کی سہولت کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں راولپنڈی سے لاہور کے لئے سفر کر رہا تھا تو مجھے انتہائی شرم محسوس ہوئی کہ مسافروں نے کہا کہ آپ کی وجہ سے ٹرین دس سے پندرہ منٹ پہلے آئی ہے۔
اسی وجہ سے ہماری پی آئی اے تباہ ہوئی کیونکہ وہاں پر بھی ایفی شنسی نام کی کوئی چیز نہیں تھی، اوپر سے بے دریغ بھرتیاں کی گئیں جبکہ ایک دور تھاکہ پی آئی اے پاکستان کی عظمت کا نشان تھا اور دنیا اسے دیکھتی تھی، آج وہی حال ریلوے کا ہے لیکن ہم نے اسے پاکستان کی عزت کا نشان بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم فریٹ کی طرف جارہے ہیں کیونکہ ریلوے میں اربوں روپے کا نقصان ہے۔
آٹو میشن کی طرف بھی پیشرفت جاری ہے، نئے انجن آرہے ہیں اور بہت سے ایسے کام ہیں جو شیخ رشید پائپ لائن میں چھوڑ کر گئے ہیں۔ کچھ عدالتوں کے معاملات بھی ہیں۔ ہم نے ریلوے پر عوام کا اعتماد بحال کرناہے۔ ریلوے کی اراضی سے تجاوزات اور قبضے ختم کرانے کے لئے شیخ رشید احمد نے کام شروع کیا، جب تک اندر سے ہاتھ کالے نہ ہوں تجاوزات اور قبضے قائم نہیں ہو سکتے۔ میری کوئی
سوسائٹیاں نہیں ہیں میں کسی بھی قبضہ کرنے والے کو نہیں چھوڑوں گا، یہ ہماری ذاتی پراپرٹی سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ قوم کے اثاثے ہیں اور انہیں غریب کی بہتری کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میرا او رآپ کا بنچ مارک یہ ہے کہ جب پانچ سال بعد حکومت چھوڑ کر جائیں تو جائزہ لیں ہم نے غریب کو کتنا اوپر اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے ہماری زراعت، صنعت اور سیاحت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ہے، میرے جو الفاظ ہیں
وہ کمٹمنٹ ہیں اور اس کے تکمیل کے لئے وقت ضائع نہیں کروں گا۔ ہم نے ریلوے کو کمرشل انٹرپرائز بنانا ہے،جس چیز کی وزارت میں استعداد نہیں ہے ہم اسے آؤٹ سورس کریں گے، پولیس کی کچھ چیزوں کو آؤٹ سور س کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ٹریک لیز پر لینے کے لئے باہر سے اچھی کمپنیاں آئیں تاکہ فارن ایکسچینج آئے، اس سے مقابلے کی فضا پیدا ہو گی،ہم ریلوے کو تباہی سے بچا کر ترقی کی جانب لے کر آئیں گے۔