اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار رئوف کلاسرا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔اب یہ سب لیڈرز چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وفاداروں‘ ارب پتیوں اور ذاتی دوستوں کوسینیٹ میں لائیں اورکوئی سوال نہ پوچھے۔ ارشد شریف نے ایک انٹرویو میں عمران خان صاحب سے پوچھا :یہ زلفی بخاری کون ہیں؟ جواب دیا کہ وہ لندن کے ایک بڑے بزنس مین ہیں۔ارشد نے پوچھا کہ کاروبار کیا کرتے ہیں؟
عمران خان نے جواب دیا کہ یہ تو میں نہیں جانتا۔ جس کے کاروبارتک کا علم نہ تھا وہ پاکستان کا وزیر بن گیا کیونکہ وہ ذاتی دوست ہے۔ اعظم سواتی کے خلاف سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی پانچ رپورٹیں پیش کی گئیں وہ بھی سینیٹر اور وزیر ہیں۔ وجہ سب جانتے ہیں۔ ایک صاحب امریکہ سے دلوالیہ ہوکر بھاگے اور خان صاحب کے اہم وزیر بن گئے کیونکہ وہ چندہ اکٹھا کر کے دیتے تھے۔ اب شاید سوچا جارہا ہے کہ ایسے ذاتی دوستوں کو سینیٹ میں لایا جائے جن کے کاروبار کا خود عمران خان کو بھی علم نہیں لیکن نوازشات بہت ہیں۔ کوئی ایم این اے یا ایم پی اے اگر کسی ارب پتی اجنبی کو ووٹ نہیں دینا چاہتا تو اس کو باندھ دیا جائے گا کہ وہ اس اے ٹی ایم کو ضرور ووٹ دے کیونکہ وہ صاحب پر بڑا پیسہ خرچ کرچکا ہے۔چونکہ ایسے لوگوں کو خطرہ ہے کہ انہیں ووٹ نہیں پڑے گا اور کہیں پارٹی کے ارکان بغاوت نہ کر جائیں‘ لہٰذا سب سے ہاتھ کھڑا کرایا جائے گا۔ خطرہ وہی ہے کہ کہیں ایم پی ایز اور ایم این ایز اپنے ووٹ ماضی کی طرح کسی اور کو نہ بیچ دیں‘ لہٰذا شو آف ہینڈز کیا جائے تاکہ ذاتی یار دوستوں اور ارب پتیوں کو کھپایا جاسکے جیسے ماضی میں ہوتا رہا۔