نیویارک(این این آئی )عالمی بینک نے جنوبی ایشیا میں بدترین کساد بازاری کی پیش گوئی کرتے ہوئے کووڈ19کے منفی اثرات کی وجہ سے سست اور غیر یقینی معاشی بحالی کے ساتھ ساتھ آئندہ دو سالوں میں پاکستان میں غربت میں اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق سال میں دو مرتبہ شائع ہونے والی بینک کی جنوبی ایشیا اکنامک فوکس رپورٹ کے تازہ شمارے میں کہا گیا کہ پاکستان میں اقتصادی شرح نمو مالی سال 2021 میں کم ہونے کی توقع ہے اور 0.5 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ اس سے قبل مالی سال 2019 تک تین سال کے دوران سالانہ اوسط 4فیصد رہی۔رپورٹ کے مطابق اقتصادی نمو توقع سے کم یعنی مالی سال 2021 اور 2022 میں اوسطا 1.3 فیصد رہنے کا امکان ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ اندازہ انتہائی غیریقینی ہے اور اس کی پیش گوئی انفیکشن میں اضافہ نہ ہونے یا وائرس کی مزید لہروں کے نہ آنے کے حساب سے کی گئی ہے کیوں کہ دوسری صورت میں مزید وسیع پیمانے پر لاک ڈائون کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔اس رپورٹ کے اجرا سے قبل ایشیا کے خطے کے لیے عالمی بینک کے نائب صدر ہارٹویگ شیفر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کووڈ19 کے دوران جنوبی ایشیائی معیشتیں توقع سے زیادہ تباہی سے دوچار ہوئیں بالخصوصہ چھوٹے کاروبار اور
غیر رسمی کام کرنے والوں کے لیے یہ صورتحال بدترین ثابت ہوئی جو اچانک اپنی ملازمت اور اجرت سے محروم ہو گئے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بینک نے تکنیکی وجوہات کی بنا پر پاکستان کی غربت کے اعداد شائع نہیں کیے لیکن خطے کے دوسرے ممالک کی طرح
ربت میں اضافے کی شرح بلند ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وبائی مرض پر قابو پانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے پاکستان کی معیشت شدید متاثر ہوئی، اقتصادی سرگرمیاں سکڑ گئیں اور غربت میں مالی سال 20 میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ رواں برس کے آغاز میں مالیاتی اور مالی
پالیسیوں میں سختی کی گئی اور اس کے بعد لاک ڈائون نافذ کردیا گیا۔توقع کی جارہی ہے کہ نمو بتدریج ہونے کے امکان ہے لیکن غیر یقینی صورتحال اور طلب کے دبا کے لیے کیے گئے اقدامات کی بحالی کی وجہ سے یہ کم رہنے کا امکان ہے، اس منظر نامے میں انفیکشن کے ممکنہ طور
پر دوبارہ پھیلا، ٹڈی دل کی وجہ سے فصلوں کو وسیع پیمانے پر پہنچنے والے نقصان اور مون سون بارشوں نے مزید خطرات کا اضافہ کردیا۔مجموعی طور پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا اپنی بدترین کساد بازاری کا شکار ہے کیونکہ اس خطے کی معیشتوں پر کووڈ 19 کے تباہ
کن اثرات مرتب ہوئے ہیں، غیر رسمی کارکنوں میں غیر متناسب اضافے کا سامنا کرنا پڑا ہے اور لاکھوں جنوبی ایشیائی باشندوں کو شدید غربت کا شکار ہوئے۔رپورٹ میں خطے میں توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے معاشی تنزلی کی پیش گوئی کی گئی ہے کیونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں
خطے میں سالانہ 6 فیصد شرح نمو کے بعد 2020 میں اس کے 7.7فیصد تک سکڑنے کا امکان ہے۔شیفر نے کہا کہ فوری امداد کی فراہمی سے وبائی امراض کے اثرات کم ہوگئے ہیں لیکن حکومتوں کو اسمارٹ پالیسیوں کے ذریعے اپنے غیر رسمی شعبوں میں پائے جانے والے گہرے خطرات
کو دور کرنے اوریوسائل کو دانشمندی سے مختص کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جی ڈی پی کی حقیقی نمو مالی سال 19 کی 1.9فیصد سے کم ہو کر 2020 میں 1.5فیصد رہنے کا امکان ہے جو کئی دہائیوں کے بعد بدترین کمی ہے
جو کورونا کے پھیلا کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور وائرس سے قبل سخت مانیٹری اور مالیاتی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ مقامی معاشی سرگرمیوں کی بحالی کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ کورونا کے فعال کیسز میں کمی کے بعد لاک ڈان میں نرمی کی
گئی لیکن پاکستان کی جلد معاشی بہتری کے امکانات دب کر رہ گئے ہیں، وبائی مرض کے دوبارہ پھیلا اور ویکسین کی دستیابی پر چھائی غیر یقینی صورتحال، غیر عدم توازن کو روکنے کے لیے مانگ میں کمی کے ساتھ ساتھ غیرموزوں بیرونی حالات صورتحال کی منظر کشی کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق توقع ہے کہ کرنٹ اکانٹ خسارہ مالی سال 21 اور مالی سال 22 میں جی ڈی پی کا اوسطا 1.5 فیصد ہوجائے گا، مقامی سطح پر طلب اور عالمی حالات میں بہتری آنے کے ساتھ درآمدات اور برآمدات میں نتدریج بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ مالی سال 22 میں
مالی استحکام کی بحالی اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور سنجیدہ ساختی اصلاحات کی مدد سے مضبوط آمدنی کو دوبارہ شروع کرنے کے ساتھ ملک کا مالی خسارہ 7.4 فیصد تک محدود رہنے کا امکان ہے۔رپورٹ کے مطابق معقول سود کی ادائیگی، بڑھتی ہوئی تنخواہ اور پنشن بل
اور توانائی کے شعبے میں حکومت کے ذریعے سرکاری کاروباری اداروں کے گارنٹی والے قرض کی وجہ سے اخراجات کافی حد تک برقرار رہیں گے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ مستقبل قریب میں شرح نمو میں کمی کے پیش نظر غربت کی صورتحال مزید خراب ہونے کی توقع ہے، رپورٹ
میں بتایا گیا کہ کمزور طبقے میں خدمات کے شعبے میں ملازمتوں پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے اور سروسز کی کمزور شرح نمو ممکنہ طور پر وبا کی وجہ سے بے انتہا غربت میں کمی کے سلسلے میں غیرموثر ثابت ہو گی۔اس میں کہا گیا ہے کہ معاشی منظر نامے کے لیے سب سے بڑا خطرہ
ممکنہ طور پر وائرس کی دوسری لہر کی وجہ سے انفیکشن کا پھیلا ہے جس کی وجہ سے مقامی سطح پر نیا لاک ڈائون نافذ کیا ج سکتا ہے اور ڈھانچے میں اصلاحات پر عملدرمد التوا کا شکار ہو جائے گا۔ٹڈی دل کے حملوں اور مون سون کی بے انتہا بارش سے فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان
پہنچ سکتا ہے، خوراک کے عدم تحفظ اور افراط زر کے دبا کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر زراعت پر انحصار کرنے والے گھرانوں کے معاش پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔آخر کار غیر روایتی عطیہ دہندگان اور بین الاقوامی مالی اعانت کے سخت حالات سے زیادہ دوطرفہ قرضوں میں اضافے میں
مشکلات کی وجہ سے بیرونی مالی اعانت کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔بینک نے نوٹ کیا کہ کمزور سرگرمی کے باوجود پاکستان میں خوراک کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے، توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور کمزور روپیے کی وجہ سے صارفین کے لیے مہنگائی کی شرح مالی
سال 19 میں اوسطا 6.8فیصد سے بڑھ کر مالی سال 20 میں اوسطا 10.7 فیصد ہو گئی۔افراط زر کے دبا کے ساتھ پالیسی کی شرح جولائی 2019 سے فروری 2020 تک 13.25fiSd پر رکھی گئی تھی لیکن اس کے بعد کم ہونے والی سرگرمیوں کی معاونت کے لیے مالی سال 20 کے بقیہ حصے کے لیے کم کر کے 7فیصد کردی گئی تھی۔