ریاض (این این آئی )سعودی عرب کے امریکا میں سابق سفیر اور سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ بندر بن سلطان نے کہا ہے کہ فلسطینی خود دھڑوں میں منقسم ہیں۔غربِ اردن میں فلسطینی اتھارٹی غزہ کی خود ساختہ حکمراں جماعت حماس کو غدار قرار دیتی ہے۔اس صورت حال میں کوئی دوسرا ان کے نصب العین کی کیا وکالت کرسکتا ہے؟انھوں نے ان خیالات کا اظہار عرب ٹی وی سے ایک انٹرویومیں کیا
انھوں نے کہا کہ فلسطینی قیادت تاریخی طور پر ناکام رہی ہے۔اس کی ناکامیوں کا یہ سفر ہنوز جاری ہے۔انھوں نے اس ضمن میں فلسطینی قیادت کی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے ردِ عمل میں خلیجی ریاستوں اور ان کی قیادت پر تنقید کا حوالہ دیا ہے۔انھوں نے کہاکہ میں نے حالیہ دنوں میں فلسطینی قیادت سے جو کچھ سنا ہے، وہ فی الواقع بہت ہی تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔اس نچلی سطح کے بیانیے کی ہم ان عہدے داروں سے بالکل بھی توقع نہیں کرتے ہیں جو عالمی حمایت کے حصول کے خواہاں ہیں۔ان کا خلیجی ریاستوں کی قیادت کے بارے میں معاندانہ ناروا رویہ بالکل ناقابل قبول ہے۔شہزادہ بندر کے بہ قول غزہ میں حماس اور غربِ اردن میں فلسطینی اتھارٹی کا نئے امن معاہدوں پر ردعمل ان کی وسیع تر ناکامی کا مظہر ہے۔انھوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے لیڈر غربِ اردن کی قیادت پر غداری کے الزامات عاید کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب غربِ اردن کی قیادت غزہ کی قیادت پر کمر میں چھرا گھونپنے اورالگ سے اپنی عمل داری قائم کرنے کا الزام عاید کرتی ہے۔انھوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ گذشتہ برسوں کے دوران میں فلسطینی کاز ، امن اقدامات اور فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس انداز میں کوششیں کی جانا چاہیے تھیں کہ جس سے کسی ایسے نقطے تک پہنچا جاسکتا جہاں اس منصفانہ مگر ڈاکا زدہ کاز کے حل کے لیے امید کی کوئی کرن پیدا ہوتی۔جب میں یہ بات کہتا ہوں کہ اس کاز کے ساتھ ڈکیتی کی گئی ہے تو اس سے اسرائیلی اور فلسطینی لیڈر، دونوں برابر مراد ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی کاز ایک جائز اور منصفانہ نصب العین ہے لیکن اس کے وکیل ناکامی سے دوچار ہوئے ۔اسرائیلی کاز ایک غیرمنصفانہ نصب العین ہے مگر اس کے وکیل کامیاب ٹھہرے ہیں۔گذشتہ 70 ، 75 سال کے دوران میں رونما ہونے والے واقعات کی یہ تاریخ ہے۔