پیر‬‮ ، 15 ستمبر‬‮ 2025 

بھارت کو پاکستانی باسمتی چاول پر اپنا لیبل لگا کر عالمی مارکیٹ میں کامیاب ہونے نہیں دیں گے، تمام ممکنہ قانونی اقدامات کئے جائیں گے،وفاقی حکومت کا دوٹوک اعلان

datetime 15  ستمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اجلاس میں وفاقی حکومت نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے باسمتی چاول پر اپنا لیبل لگا کر عالمی مارکیٹ میں کامیاب ہونے نہیں دیں گے بلکہ بھارت کے خلاف تمام ممکنہ قانونی اقدامات کئے جائیں گے۔ پاکستان میں بننے والی اشیاء دیگر ممالک کے مقابلے میں غیر میعاری ہیں۔

حکومت جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے ملک میں بجلی کی کھپت میںکمی لا سکتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کا ا ہم اجلاس سینیٹر مشتاق احمد کی صدارت میں ہوا جس میں وزارت کے اعلیٰ افسران کے علاوہ ممبران کمیٹی جن میں نعمان وزیر، سید صابر شاہ، نزہت صادق ، اسد جونیجو، سسی پلیجو، کامران مائیکل، گیان چند نے شرکت کی اور افسران سے تفصیل کے ساتھ اہم امور پر بریفنگ کی۔ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے افسران نے کمیٹی کو بتایا کہ یورپ اور امریکہ ، جاپان، کوریا وغیرہ کے مقابلہ میں پاکستان میں اشیاء کا معیارانتہائی ناقص ہے اور جو پروڈکٹس پاکستان میں استعمال ہوتا ہے وہ یورپ میں استعمال نہیں ہو سکتا اگر پاکستان میں معیاری بلب ہی بنا لئے جائیں تو بجلی کی کھپت میں کمی ہو سکتی ہے۔ حکومت کے 61اشیاء کو مزید کوالٹی کنٹرول میں شامل کیا ہے ۔ اسکا معیار بنایا جا سکتا ہے انہوں نے کہا کہ کوالٹی کنڑول اتھارٹی کے پاس اشیاء کا معیار جانچنے کے لے لیب بھی نہیں ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی، وزیر اعظم کے زیرکنٹرول سائنس کمیٹی کا اجلاس 2002ء کے بعد ہوا بھی نہیں ہے جبکہ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر کنٹرول سائنس کمیٹی کا بھی اجلاس 2010ء کے بعد طلب ہی نہیں کیا گیا ، یہ حکومت کی انتہائی غیرمنصفانہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ آئی پی او کے چئیرمین مجیب احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں ریسرچ پر بہت کم اہمیت دی گئی ہے۔پاکستان میں 100سے زائد یونیورسٹیاں ہیں لیکن صرف 10یونیورسٹیوں کے

گزشتہ دس سالوں میں ریسرچ پیپرز آئی پی او کو دے کر پیٹنٹحاصل کئے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ بھارت کو اس دفعہ پاکستان کے باسمتی چاول پر لیبل نہیں لگانے دیں گے۔ پی آئی او کے پاس 268کمپنیوں کے سرٹیفیکیٹ کے لئے درخواست دی ہیں جن میں 237غیرملکی جبکہ 31ملکی ہیں۔

گزشتہ دس سالوں میں 15اداروؓ بت 709درخواستیں دی ۔ پروڈکٹس کے لئے پیٹنٹ حاصل کرنے کے لئے ہم سے رجوع کیا ہے۔ پاکستان میں 100سے زائد یونیورسٹیاں ہیں لیکن صرف 8نے ریسرچ پیپرز گزشتہ دس سالوں میں جمع کرائے ہیں ۔ قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ر یسرچ کے نام پر یونیورسٹیوں نے بھاری فنڈز حاصل کئے ہیں۔ ان کے اخراجات کی تحقیقات کرنی چاہیے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



Self Sabotage


ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…