اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وزیر اعظم نوازشریف10 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے خود ہتھیار نہیں ڈال دیتے تو عدالت کے پاس مختلف قانونی اختیارات ہیں۔امکان ہے کہ وہ اپنے نامکمل طبی علاج کے باعث دی گئی ڈیڈ لائن تک لندن سے نہیں لوٹیں گے۔
قانونی ماہرین مختلف احکامات کا حوالہ دیتے ہیں کہ نواز شریف کے خود کو عدالت کے سامنے پیش نہ کرنے کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا دو رکنی بنچ حکم جاری کرسکتا ہے۔روزنامہ جنگ میں طارق بٹ کی شائع خبر کے مطابق سابق وزیر اعظم کی جانب سے دو ریفرنسز میں ان کی سزا کے خلاف دائر اپیلیں اورنیب کے ذریعہ ایک معاملے میں ان کی بریت کے خلاف پیش کردہ ایک چیلنج کی سماعت بیک وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ذریعے کی جارہی ہے۔معروف قانونی ماہر عمر سجاد کہتے ہیں کہ انتہائی اقدام کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ حتی کہ نواز شریف کی اپیلیں بھی خارج کر سکتی ہے۔ وہ ان کے خود کو عدالت کے سامنے پیش کرنے تک ان کی درخواستوں کو التوا میں ڈال سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سابق وزیر اعظم کو مفرور قرار دے سکتی ہے۔ اس صورتحال میں ان کی ضمانت کے لئے دی گئی ضمانت ضبط ہوسکتی ہے جبکہ ان کی املاک کی نیلامی کا بھی حکم دیا جاسکتا ہے۔
فوجداری قانون کا ایک اصول ہے کہ ملزم کو خود ہتھیار ڈال دینے چاہئیں جب ان کی ضمانت ختم ہوجائے کیونکہ عدالتیں محسوس کرتی ہیں کہ سہولت ختم ہونے کے بعد ملزمان پیش ہونے سے گریز کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر ملزمان، جو جیل میں یا ضمانت پر ہوں
کو اپیلیٹ عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی جب تک انہیں طلب نہ کیا گیا ہو۔ٹرائل یا اپیلیٹ عدالتیں بھی ملزم کو پیشی سے استثنیٰ دے سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اور آپشن یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کی غیر موجودگی میں بھی اپیلوں پر کارروائی کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔