کراچی(آن لائن)دارالعلوم امجدیہ میں کراچی بھر کے ائمہ وخطبائے اہلسنّت اور مساجدِ اہلسنّت کے ذمے داران کا مشترکہ اجلاس ہوا، اس میں ہزاروں کی تعداد میں ائمہ وخطبائے کرام شریک ہوئے۔ اجلاس میں مقررین نے حالاتِ حاضرہ پر روشنی ڈالی، ناموسِ صحابہ کے بارے میں عام جلسوں میں جو دریدہ دہنی کی جارہی ہے، اس کے بارے میں شواہد کے ساتھ حاضرین کو آگاہ کیا گیا۔
مفتی منیب الرحمن نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ اس فسادی تحریک کے پیچھے نہ صرف بین الاقوامی قوتیں ہیں ، بلکہ حکومت کی صفوںمیں موجود عناصر بھی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا اور انہیں تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ اہلسنت وجماعت اس ملک کی غالب اکثریت ہیں ، نہ ہم ملک میں فساد چاہتے ہیں نہ موجودہ حالات میں ہمارا ملک کسی فساد کا کا متحمل ہوسکتا ہے ، لیکن جب برسرِ عام دینی مسلّمات ومقدّسات پر جارحانہ حملے کیے جائیں، تو غیور مسلمانوں کے لیے بالکل خاموش بیٹھے رہنادینی حمیّت کے منافی ہے ، بے حسی ہے اور بے عملی ہے۔ ہم نے 29جولائی کو بھی پریس کانفرنس کر کے خاص طور پر قومی سلامتی کے اداروں کو متوجہ کیا تھا ، سیاسی قیادت کو تو اپنے سیاسی مناقشات سے ہی فرصت نہیں کہ وہ دینی، ملّی اور قومی حساسیت کے معاملات کا ادراک کریں اور تدارک کر کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کریں۔ انہوں نے کہاایف آئی آر کوئی تعویذ نہیں ہے کہ گلے میں لٹکاکر ردِّبلا کا کام دے گا، اصل مسئلہ مجرمین کے خلاف قانونی کارروائی ہے۔ مزید یہ کہ کچھ قوتیں اہلسنّت کے بے قصور علماء پر ایف آئی آر کاٹنے کی دھمکی دے رہی ہیں، کیا اہلسنّت کے علماء نے کسی کے مقدّسات پر یا عقائد پر حملہ کیا ہے ، کسی جلسہ عام میں فرقہ واریت اور انتشار کی باتیں کی ہیں ، کیا تحریکِ انصاف کا یہ معیارِ انصاف ہے کہ بے قصور اور قصور وار کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا جائے ، کیا اس سے ملک کی غالب اکثریت کو مشتعل کرنا مقصود ہے۔ اہلسنّت پرامن تھے اور پرامن رہیں گے ، اس ملک کی سلامتی ہمیں کسی اور سے زیادہ عزیز ہے ، لیکن بنیادی عقائد اور دینی مسلّمات پر سودے بازی نہیں ہوسکتی۔ عقائد توصدیوں سے چلے آرہے ہیں
، لیکن پاکستان کی تہتّر سالہ تاریخ میں عوامی جلسوں اور اجتماعات میں اشتعال انگیز باتیں نہیں ہوئیں اور اہلسنّت نے دوسروں کے معمولات میں کوئی دخل اندازی نہیں کی، یہ سب کچھ 74ویں سال میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت میں پہلی بار ہوا ہے ، کاش کہ ایسا نہ ہوتا، ہمیں بلاوجہ سڑکوں پر آنے کا شوق نہیں ہے، لیکن ریاست وحکومت کے تمام عناصر اور مقتدر حلقوں کو یہ ذہن نشین کرنا چاہیے کہ یکطرفہ جبر کے نتائج ملک وملّت کے لیے مفید نہیں ہوں گے،
ہمارے احتجاج ماضی میں بھی پرامن رہے ہیں اور اب بھی ان شاء اللہ سوفیصد پرامن رہیں گے، لیکن کیا ہم سے احتجاج کا حق بھی چھین لیا جائے گا۔لوگوں کو اْن سب عناصر کا پتا ہے جو ریاست میں اعلیٰ مناصب پر فائز ہوکر نفرت انگیزی کی پشت پناہی کر رہے ہیں ، وزیرِ اعظم اپنے گِردوپیش کا جائزہ لیں تو انہیں پتا چل جائے گا۔ اہلسنّت کی خبروں کا بلیک آؤٹ کرنے کے لیے میڈیا کو باقاعدہ ہدایات جاری کی جاتی ہیں اور اہلسنّت کے عقائد کے خلاف توہین آمیز باتیں ڈائریکٹ میڈیا پر نشر ہوتی ہیں۔ اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ ہفتہ 12ستمبر 2020ء کو صبح دس بجے مزارِ قائد اعظم سے تبت سنیٹر تک عظیم الشان پْر امن احتجاجی ریلی نکالی جائے گی ،
ہم الیکٹرانک مارکیٹ کے تاجروں سے اپیل کرتے ہیں کہ اْس دن دوبجے سہ پہر کے بعد اپنی دکانیں کھولیں ، نیز عامّة المسلمین ، اساتذہ، وکلائ، کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اورکاروباری طبقات سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے جائز موقف کی تائید وحمایت میں اس پْرامن ریلی میں شریک ہوں۔ نیز ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نالوں کی صفائی اور تجاوزات کے خاتمے کی مہم میں جو مساجد زَد میں آرہی ہیں، حکومتِ سندھ ان کے لیے متبادل جگہیں فراہم کرے اور جن مساجد کوباقی رکھا جاسکتا ہے، انہیں نہ چھیڑا جائے۔