اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’ڈرامہ ارطغرل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔آپ میڈیا کا اثر دیکھیے آج ارطغرل کا کردار ادا کرنے والا اداکار اینجن التان باہر نکلتا ہے تو لوگ آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ چومنا شروع کر دیتے ہیں اور جب حلیمہ سلطان کا کردار نبھانے والی اداکارہ اسرا بلگچ اور ارطغرل کی ماں حیمہ انا کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ حلیہ دارجان کی بکنی اور کھلے گلے کی
تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوتی ہیں تو لوگ شدید احتجاج کرتے ہیں‘ یہ ان تصویروں کو اسرا بلگچ اور حلیہ دارجان کی تصویریں ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔اسی طرح سلیمان شاہ کا کردارسردار گوکھان‘ سلیمان شاہ کے بھائی کا کردارہیکن وینلی‘ سعد الدین کوپیک کا کردار مورات گیری پااوغلواور نویان کا کردار برس باج نے ادا کیا تھا‘ لوگ آج انہیں ان کے اصل نام کی بجائے ان کے کرداروں سے جانتے ہیں‘سردار گوکھان عام زندگی میں بھی سلیمان شاہ اورمورات گیری پااوغلو اپنی گلی میں بھی سعد الدین کوپیک بن چکے ہیں‘آپ کیمرے کی پاور دیکھیں نویان کا کردار ادا کرنے والے برس باج اور سعدالدین کا کردار ادا کرنے والے مورات گیری پااوغلوجب گلیوں یا بازاروں میں نکلتے ہیں تو لوگ غصے میں ان کے ساتھ لڑنا شروع کر دیتے ہیں‘ دکان دار انہیں سودا نہیں دیتے۔یہ ہے میڈیا یعنی اصل نقل ہو گیا اور نقل اصل ہو گئی‘ آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے کیا اس ڈرامہ سیریز نے اس کے اداکاروں کا کیریئر ختم نہیں کر دیا‘ کیا یہ اب باقی زندگی ارطغرل کی چھاپ سے باہر آ سکیں گے‘ میرا خیال ہے نہیں‘یہ لوگ بھی اب محبوب عالم کی طرح چودھری حشمت بن چکے ہیں‘ یہ اب مرنے تک دریلیش ارطغرل سے باہر نہیں آ سکیں گے۔ارطغرل کے تمام ولن بہت مضبوط اور اداکاری کی معراج چھوتے نظر آتے ہیں‘ سیریز کے لیے استنبول کے مضافات میں پانچ ہزار لوگ آباد کیے گئے۔خیمے بھی لگائے گئے اور قازقستان سے 25 ٹرینڈ گھوڑے اور تلوار باز بھی منگوائے گئے‘ اداکاروں کو چھ ماہ ٹریننگ دی گئی اور پھر ایک ایسا شاہکار سامنے آیا جسے مغربی میڈیا اسلامی بم قرار دے رہا ہے اور یہ واقعی اسلام کا ثقافتی‘ روحانی اور تاریخی بم ہے لیکن میری اس کے باوجود درخواست ہے آپ اسے مت دیکھیں‘ کیوں؟ کیوں کہ آپ اسے شروع کرنے کے بعد چھوڑ نہیں سکیں گے‘ آپ کے اندر ایک ارطغرل پیدا ہو جائے گا اور آپ کو باقی زندگی اس کے ساتھ گزارنا پڑے گی۔