اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)اللہ برصغیر کو جنگ سے محفوظ رکھے، خاص طور پر ایٹمی جنگ سے۔ بھارت کا جنگی جنون خوفناک ہو چکا ہے مگر اس سے زیادہ حیرت انگیز خبر یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 1985ء سے تمام شوگر ملز کا آڈٹ کیا جائے گا اور بدعنوانی کے کیسز نیب اور ایف آئی اے کو بھیجے جائیں گے۔۔۔۔سینئر صحافی و کالم نگار منصور آفاق اپنے کالم ’’تبدیلی کی تبدیلیاں ‘‘
میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔بے یقینی کے عالم میں بار بار یہی خیال آتا ہے کہ کہیں بلی کے گلے میں گھنٹی تو نہیں باندھی جا رہی۔ موجودہ حکومت نے کئی ایسے فیصلے کئے جن کا پہلے تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں تو غلام سرور خان کے اس بیان پر بھی حیران تھا کہ ’’جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کےخلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے بلکہ جن جن کے نام شوگر کمیشن رپورٹ میں سامنے آئے ہیں، سب کے خلاف‘‘۔ مبینہ طور پر خسرو بختیارکے بھائی کے گروپ کے متعلق تفصیلی چھان بین کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جس نے سات برسوں میں 4شوگر ملیں، 5پاور جنریشن کمپنیاں، 3ٹریڈنگ کمپنیاں، ایک غیر ملکی کمپنی، ایک ایتھانول کا مینو فیکچرنگ یونٹ اور 2078کنال زرعی زمین جیسے اثاثے بنائے ہیں۔ جہانگیر ترین کے خلاف بھی کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے مگر جہانگیر ترین کے خلاف کام کرنے والا حکومتی گروہ اُن سے خوف زدہ بھی ہے۔وہ گروہ عمران خان کو مشورے دے رہا تھا کہ ان تمام افراد کو بڑے بڑے عہدوں سے فارغ کر دیا جائے جو جہانگیر ترین کے بہت زیادہ قریبی ہیں۔ یعنی پھر اکھاڑ پچھاڑ شروع کی جائے۔ نئے وزیروں کے لئے اچھے لوگوں کی فائلیں تو منگوا لی گئی ہیں۔وفاق میں بھی کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں مگر پہلے پنجاب۔ کئی جانے والے وزیروں کے نام تو وائرل بھی کئے جا چکے ہیں۔ حکومتی حلقے اس اکھاڑ پچھاڑ کا سبب وزرا کی بری کارکردگی کو قرار دے رہے ہیں مگر میرے خیال میں پچاسی سے آڈٹ کے حکم نامہ کے بعد فوری ایکشن ممکن نہیں۔ پچاسی سے اب تک اسی نوے ملوں کے
آڈٹ کے لئے کتنا وقت درکار ہے یہ تو کوئی آڈٹ آفیسر ہی بتا سکتا ہے۔پرانی روایت کے مطابق تو یہ دورانیہ نسلوں پر پھیل سکتا ہے۔ کچھ مخالفین کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ معاملات کو طوالت دینے کے لئے کیا گیا ہے کہ فوری کسی شوگر مل کے مالک کے خلاف کارروائی نہ شروع ہو سکے۔ اس امکان سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نیب والے حکومت یا اُس کے اتحادیوں میں سے کسی اہم شخصیت کو کسی
وقت بھی گرفتار کر سکتے ہیں۔شہباز شریف کی گرفتاری سے پہلے ضمانت بھی بہت کچھ کہہ رہی ہے۔شہباز شریف یہ بات کئی لوگوں کو کہہ چکے ہیں کہ میری بات چیت چل رہی تھی۔ کابینہ کے نام فائنل ہو رہے تھے کہ اچانک معاملات راستے میں رک گئے۔ کہتے ہیں وزیراعلیٰ سندھ کی نیب میں پیشی کے بھی کئی معاملات طے شدہ تھے۔ نیب نے ستر کے قریب کیسز کی فائلوں کو پہیے لگا دیے ہیں یعنی نیب کی حوالات کے تمام کمرے پھر سے آباد ہونے والے ہیں۔