اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر تجزیہ کار اوریا مقبول جان نے ایک نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ میں گزشتہ دو سال سے جتنے بھی عورت مارچ دیکھ رہا ہوں جتنے نعرے دیکھ رہا ہوں وہ سرکل رائونڈ کرتا ہے صرف ایک جسم کے اوپر ۔ اس کےاندر نہ یہ اس حق کا کوئی مطالبہ ہے کہ عورت کو جائیداد کے اندر کوئی حصہ ملنا چاہیے اس کے اندر نہ یہ حق مانگا گیا ہے کہ اس کو خاندان کے اندر ایک جیسا پیار ملنا چاہیے ،
آپ سارے کے سارے نعرے اٹھا لیں ، سینیٹر ی پیڈ لگا کر آج کے نعروں پر اس عزت و تکریم مانگی جارہی ہے اس سے زیادہ شرمناک بات کیا ہو گی ۔سینئر کالم نگار کا کہنا تھا کہ آپ کا حق کیا ہے آپ کا بدن ہی آپ کیلئے امپورٹڈ ہے اس کے علاوہ آپ کا کوئی حق نہیں ، آپ پچھلے سال اور آج کے نعرے اٹھا کر دیکھ لیںکہ کہاں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں یہ قانون لے کر آئو کہ اسلام کہتا ہے کہ عورت کو جائیداد میں حق دو تو حق دو ۔ کہاں کہا گیا ہے کہ ایک عورت کو یکساں نصاب تعلیم کا حق دو ۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ میں زیادہ تر ایسے نعرے ملتے ہیں ، مجھےاس طرح مت دیکھو ، مجھے اس طرح مت دیکھو ، مجھے اس طرح رکھو ، میرا جسم یہ ہے وہ ہے ۔ یہاں بنیادی مسئلہ یہ ہے یہاں دو مختلف سوچیں آگئیں ہیں ۔ ایک سوچ یہ کہتی ہے کہ ہم نے انسٹیویشن آف فیملی تباہ و برباد کرنی ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ نہیں انسٹیویشن آف فیملی باقی رہنا چاہیے۔اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ 1920ء میںپہلی دفعہ عورت کو فلیپر پہنا کر ہاتھ میں سیگریٹ پکڑایا گیا تو یہ کس نے دیا اس پورے کے پورے ویسٹرن ورلڈ نے تھمایا ہے ، عورت کے پائوں کے ناخن سے لے کر اس کے بالوں تک کوئی ایسی جگہ نہیں جسے انہوں نے کمرشلز نہ کیا ہو۔ 170ارب ڈالر کی انڈسٹری گھومتی ہے اس عورت کے اردگرد، ایک سو بیس ارب کی فیشن انڈسٹری اس عورت کے اردگرد گھومتی ہے ۔ 181ارب ڈالر کی پورنو انڈسٹری گھومتی ہے
اس کے ارد گرد ۔ یہاں تو کوئی احتجاج کرتا نظر نہیں آتا ۔ تباہ و برباد کر دیا پوری دنیا کو انہوں نے یہاں کسی نے کہا کہ فلمیں روکو ۔ کسی نے کہا فیشن انڈسٹری روکو ۔ ان کا کہنا تھاکہ جب عورت ریمپ واک پر چل رہی ہوتی ہے کس غلیظ طریقے سے یہ باتیں کر رہے ہوتے ہیںیہ سارے وہیں بیٹھے ہوتے ہیں وہاں کوئی مولوی نہیں بیٹھا ہوتا ۔ میں اگر ان مردوں کی گفتگو سنا دوں تو لوگوں کو شرم آنےلگے گی ۔
اس معاشرے نے عورت کو ریمپ پر کھڑا کیا جس نے اس عورت کو گندی نظروں کے سامنے چھوڑنے دیا ہے ۔ کیمرہ مین سے لے کر اوپر تک آپ ان لوگوں کی گفتگو سن لیں تو آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا ۔ پھر آپ کہتے ہیں چار لوگ جو گھر میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ آپ کا حق روکتے ہیں ، وہ تمہیں ہراساں کرتے ہیں ۔ آپ ہراساں کرنےکیلئے منڈی میں اتارا گیا ہے اور وہ منڈی کس کی ہے ؟کارپوریٹ کلچر کی منڈی ہے ۔70لاکھ عورتوں پوری دنیا سے اٹھ کر مساج پارلر کے نام پر ٹرانسپورٹ ہوتیں ہیں ، پوری دنیا کے اندر بکتی ہیں ۔ شانیزے لیزسے لے کر ایمنسٹر ڈیم تک ان کے بازاروں تک بکتی ہیں۔