اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی و کالم نگار حامد میر اپنے کالم ’’کولمبیا یونیورسٹی میں پاکستان سمپوزیم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔کچھ طالبات نے خواتین کے مسائل کے بارے میں سوالات کئے اور کہا کہ پاکستان میں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کو کچھ لوگوں نے غلط معنی پہنائے ہیں جس پر افسوس ہوا۔ میں نے جواب میں کہا کہ پاکستان میں عورتوں کی جدوجہد کی تاریخ بہت پرانی ہے
جن لوگوں نے فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا تھا وہ آج بھی عورتوں کو ان کے حقوق دینے کیلئے تیار نہیں، عورتوں کو وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو اسلام نے دیے ہیں۔ اس کانفرنس کا انعقاد کرنے میں سارہ عرفان اور مہروز احمد سمیت کئی پاکستانی طالبات پیش پیش تھیں۔ لنچ بریک کے دوران میں نے پاکستانی طلبہ و طالبات سے علیحدہ علیحدہ پوچھا کہ تعلیم مکمل کرکے آپ میں سے کون کون واپس جائے گا؟ طلبہ کی اکثریت کو پاکستان کی سیاست میں بہت دلچسپی تھی لیکن وہ پاکستان واپسی میں سنجیدہ نہ تھے۔ طالبات کی اکثریت کو سیاست میں دلچسپی کم تھی لیکن ان میں سے زیادہ تر پاکستان واپس جانا چاہتی تھیں اور ان طالبات کا جذبہ دیکھ کر مجھے یقین ہو رہا تھا کہ اگلے بیس تیس سال میں پاکستان کی عورتیں مردوں پر حاوی ہوں نہ ہوں لیکن برابر ضرورآ جائیں گی اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے کی آڑ میں عورتوں پر گھٹیا الزامات لگانے والے تاریخ کی گرد میں گم ہو جائیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہر سال فاطمہ جناح کی برسی تو منائی جاتی ہے لیکن انہیں بھارتی ایجنٹ کہنے والے ایوب خان کی برسی کوئی نہیں مناتا۔ نیا پاکستان صرف عمران خان کا نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا خواب ہے لیکن یہ نیا پاکستان عورتوں، اقلیتوں اور چھوٹے صوبوں کو ان کے حقوق دیے بغیر نہیں بن سکتا۔ 2020ءکا پاکستان 2010ءسے بہتر ہے اور 2030ءکا پاکستان 2020ءسے بہتر ہو گا۔ آخر میں حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی میں قائداعظم چیئر ختم ہو چکی ہے۔ یہاں قائداعظم چیئر کو بحال کیا جائے اور ایسی یونیورسٹیوں میں پاکستان کا امیج بہتر بنانے کیلئے پاکستانی سفارتکاروں کو خصوصی ٹاسک دیئے جائیں کیونکہ امریکہ کو سپرپاور اس کے ہتھیاروں نے نہیں، اس کی یونیورسٹیوں نے بنایا ہے۔