لاہور( این این آئی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئی ڈیل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اس ڈیل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور نہ ہی اپوزیشن سے شیئر کیا گیا ،حکومت آئی ایم ایف سے ڈیل ختم کر کے عوام اور ملک کے مفاد میں دوبارہ مذاکرات کرے ،تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی بڑے بڑے صنعتکاروں اور زمینداروں کو مزید امیر کر کے معیشت کو مضبوط کرنے کی پالیسی ہے جو ناکام ہے ،
پیپلز پارٹی مزدوروں کے لئے نئی لیبر پالیسی بنائے گی ، انہیں دوبارہ ریاستی اداروں میں حصہ دار بنائیں گے اور پھر دیکھیں گے کیسے ریاستی اداروں کی نجکاری ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں لیبر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ا س موقع پر سابق راجہ پرویز اشرف، پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ، سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی اور دیگر بھی موجودتھے ۔اس موقع پر مختلف لیبر یونینز کے نمائندوں نے بلاول بھٹو سے ملاقات کر کے انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا ۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ میں آج خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ اپنے مزدوروں کے درمیان ہوں،پیپلز پارٹی اور مزدوروں کا بہت اہم رشتہ ہے،مزدوروں کے لئے اگر کچھ کام ہوا ہے تو وہ پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا،مزدوروں کے حقوق میں اضافہ بھی پیپلزپارٹی کے دور میں ہوااور اور آئندہ بھی مزدوروں کے لئے پیپلز پارٹی کے دور میں ہی کام ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مزدوروں نے سی بی اے کا جو حق حاصل کیا اس پر حملے ہو رہے ہیں،یورپ میں فاشزم عروج پر ہے وہاں بھی مزدوروں کی بجائے کیپٹلزم کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے،اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم سب کو متحد ہونا ہو گا، ہمیں1920، 1930 اور1960 کی طرح ہمیں متحد ہونا ہو گا،نئی صدی میں دنیا بھر میں نئی مزدور پالیسی کی بات کرنا ہو گی،مزدور کی کم از کم اجرت اتنی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے گھر کا چولہا جلا سکے ۔
انہوں نے کہا کہ شہید بھٹو کے دور میں یونین سازی کا حق دیا گیا جو ضیا ء آمر نے چھین لیا،بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں اسے مزدوروں کو واپس کیا،آمر پرویز مشرف نے بھی یونین سازی کا حق چھینا جو آصف زرداری نے واپس کیا لیکن اب اسے پھر چھین لیا گیا ہے،ایمرجنسی ایکٹ کی تو ہر جگہ بات کرتے ہیں لیکن مزدوروں کے حق کی بات نہیں کی جاتی،پچھلے 5 سالوں میں بھی مزدوروں کے حقوق کیخلاف سازش ہوتی رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب ریاستی ادارے منافع کماتے ہیں
تو اس میں سے مزدور کو حصہ نہیں ملتا لیکن نقصان کا سارا بوجھ مزدور پر ڈال دیا جاتا ہے ۔پیپلز پارٹی مزدوروں کو حق دینے کی بات کرتی ہے تاکہ مزدور منافع میں برابر کا حصہ دار ہو اور نقصان کی صورت میں بورڈ میں بیٹھ کر مالکان کے ساتھ بات کر سکے کہ ان کے ادارے کیوں نقصان کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کے دور میں مزدوروں کو اداروں میں حصہ دار بنایا گیا لیکن پانچ سال میں یہ حق چھین لیا گیا ، جب عوامی حکومت بنے گی جب پیپلزپارٹی کی حکومت بنے گی تو ہم مزدوروں کو یہ حق واپس دلائیں گے ،
مزدوروں کو ریاستی اداروں میں حصہ دار بنائیں گے پھر دیکھیں گے ریاستی ادارے کیسے نجکاری کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی سلیکٹڈ کی حکومت آتی ہے تو وہ ادارے کم قیمت پر بیچنے کی کوشش کرتے ہیں،اگر پرویز مشرف ادارے نہیں بیچ سکا تو کوئی کٹھ پتلی بھی ملکی کے اثاثے اور ادارے نہیں بیچ سکے گا، ان اثاثوںمیں مزدوروں کا خون پسینہ شامل ہے ۔ مشرف کے دور میں بھی عدلیہ نے ساتھ دیا تھا اور آج بھی عدلیہ آزاد ہے اور امید ہے کہ وہ مزدوروں کا ساتھ دے گی ، مزدوری کسی کٹھ پتلی کو نجکاری نہیں کرنے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج گلوبلائزیشن کے نام پر مزدوروں کے حقوق چھینے جا رہے ہیں،ہم نے یہ پالیسی بنانی ہے کہ کس طرح اپنے مزدوروں کو گلوبلائزیشن سے تحفظ دینا ہے ، اگر کمپیوٹر اور ماڈرائزیشن کا نقصان ہے تو اس سے نقصان بھی ہو سکتا ہے ، ہم نے یہ پالیسی بنانی ہے کہ کس طرح نوکری کے تحفظ کی گارنٹی ہو ،ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ماڈرنائزیشن، گلوبلائزیشن اور کمپیوٹر کے دور میں مزدرو کی جاب سکیورٹی کیسے ہو گی،میں سمجھتا ہوں کہ یہ اتنا مشکل نہیں ہے،دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے معیشت اورعوام سمیت ہر شعبے میں ہونے والے ممکنہ نقصانات پر بات ہو رہی ہے،
ایسے میں مزدوروں کے ساتھ مل کر گرین انڈسٹری کی جانب جانے کی بات کرنی چاہیے اس خطے میں پاکستان صف اول کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہر طبقہ معاشی قتل کا شکار ہے،یہی بات میں نے اپنی بجٹ تقریر میں بھی کہی تھی،گزشتہ 15 ماہ میں جتنے مزدوروں کو بیروزگار کیا گیا ہے گزشتہ دس سالوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ، 15ماہ میں جس تیزی سے مہنگائی بڑھی ہے پاکستان کی تاریخ میں کبھی اس قدر تیزی سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوا ۔آج مزدوروں کو اپنی ہی ریاست سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے،یہ حکومت اپنے محنت کشوں کو بیل آئوٹ پیکج دینے ، ان کے لئے ایمنسٹی دینے کی بجائے
آئی ایم ایف سے اپنے مزدوروں کے معاشی قتل کی سودے بازی کرتی ہے ، پاکستان کی معاشی خود مختاری پر سودے بازی کرتی ہے ۔ آج کے حکمران کہتے ہیں کہ معیشت صحیح سمت میں گامزن ہے ، موڈیز اور بلوم برگ کہہ رہے ہیں کہ معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے لیکن ہم ہتے ہیںکہ لاہور سے مزدوروں سے پوچھ کر دیکھیں آپ کو ان سے صحیح جواب ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا سب جماعتوں سے واضح نظریاتی فرق ہے ۔ مسلم لیگ(ن)ا ور تحریک انصاف بڑے بڑے صنعتکاروں اور زمینداروں کو مزید امیر بناتے ہیں تاکہ معیشت ترقی کرے گی لیکن ہم کہتے ہیں کہ مزدوروں کو طاقتور بنائیں ، انہیں روزگار دیں ،جب پیسہ محنت کشوں کی
جیب میں جائے تو یہ پوری معیشت میں گردش کرے گا اور اس سے معیشت چلتی رہے گی لیکن جب امیروں کی جیب میں جائے گا تو ان کے بینک اکائونٹس میں جائے گا تو ان کی دولت میں اضافہ ہوگا اور اس سے معیشت بہتر نہیں ہوتی۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو پنشن اور تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ اسی سے معیشت بہتر ہوتی ہے،2008 سے 2013 تک کے اعدادوشمار نکال کر دیکھ لیں کہ اس دور میں کتنا روزگار پیدا ہوا،20013سے1018ء کی صورتحال بھی دیکھ لیں اور موجودہ 15مہینوں کا کیا بتائوں ، اس دور میں روزگار بڑھا نہیں بلکہ چھینا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اب اس معاشی قتل کیخلاف آواز اٹھائے گی،ہم پی ٹی آئی آئی ایم ایف
ڈیل کو نہیں مانتے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ، اسے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا ، اسے اپوزیشن کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا ، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ڈیل کو پھاڑ کر پھینک دیا جائے اور مزدروں ،عوام کے حق اور ملک کے مفاد میں نئے مذاکرات کئے جائیں۔ پیپلز پارٹی اور مزدوروں کو مل کر جدوجہد کرنا پڑے گی ، مزدور سے مل کر نئی لیبر پالیسی بنانا ہو گی،ہم نے اچھی لیبر پالیسی بنا کر دکھائی ہے،میں یہ نہیں کہتا کہ سندھ میں مزدور کے ساتھ سب اچھا ہو رہا ہے کیونکہ سارا نظام ایسا ہے،لیکن سندھ کا لیبر کا وزیر مزدور دشمن نہیں بلکہ مزدور دوست ہے،سندھ میں مزدوروں کے لئے 16 انقلابی قوانین بنائے گئے ہیں،زراعت میں کام کرنے والی خواتین مزدوروں کی محنت سب سے زیادہ ہے
اور سندھ حکومت نے ان کے لئے خصوصی قانون بنایا ہے،ہمیں فخر ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ ہر مزدور کو اس کا حق ملے چاہے وہ سرکاری مزدور ہو، نجی ادارے میں ہو یا اپنی مزدوری کرے،سندھ کا مزدور وہاں کی سوشل سکیورٹی سے رجسٹر ہو کر مزدور کے حقوق لے سکتا ہے،پیپلز پارٹی کو لیبر پالیسی بنانے کے لیے مزدوروں کا تعاون چاہیے ،ذوالفقار بھٹو شہید اور بینظیر شہید کی وجہ سے مجھ پر مزدوروں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کا قرض ہے،مزدوروں نے کبھی ذوالفقار بھٹو شہید اور بینظیر بھٹو شہید کو اکیلا نہیں چھوڑا، میں بھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا اور آپ بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ایک مزدور کے مالک کی جانب سے قتل کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے ۔ سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سندھ میں سب سے زیادہ کام کیا گیا،مزدوروں کے لئے 16 نئے قوانین بنائے گئے جو کسی اور صوبے میں نہیں بنائے گئے،
سہہ فریقی لیبر کانفرنس بھی سندھ میں ہی منعقد کروائی گئی ،ورکرز ویلفیئر بورڈ صوبوں کے پاس آنا چاہیے تھا جو وفاق نہیں دے رہا،ہم نے اپنے صوبے میں اس حوالے سے قوانین بنا لئے ہیں،ہمارے ادارے نے بہت زیادہ فنڈز اکٹھے کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 2008 میں سوشل سکیورٹی کو سب مزدوروں کے لئے اوپن کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس پر مکمل عملدرآمد نہیں کر سکے،صوبہ سندھ میں اب ساڑھے 6 لاکھ مزدوروں کو قانون کے مطابق سہولتیں دے رہے ہیں ،سندھ کی حکومت نجی شعبے کوبھی تمام مزدوروں کو سوشل سکیورٹی کا پابند بنا رہی ہے ،ہم سندھ میں ہر مزدور خواہ وہ کہیں ریڑھی لگاتا ہو ڈرائیور ہو گھریلو ملازم ہو سب کو سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ کریں گے ان کو بھی یہ سہولیات ملیں گی، نادرا کے ساتھ ایم او یو کر رہے ہیںجس کے بعد بینظیر مزدور کارڈ جاری کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کے بہت الزام لگائے جاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں جس دن نجکاری کی تحقیقات ہوئیں تو یہ سب سے بڑا اسکینڈل نکلے گا، اس سے چند خاندانوں کو فائدہ ہوا ہے جبکہ کروڑوں عوام کا نقصان ہوا ہے۔ ایم سی بی کا کیس پڑا ہے،اس پر کارروائی نہیں ہو رہی،سپریم کورٹ نے میگا کرپشن کیس کی جو لاٹ دی اس میں یہ کیس شامل تھا۔