اسلام آباد (آن لائن)سپریم کورٹ میں کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ کی رہائی کے حکم کیخلاف حکومتی اپیل پر سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے سوال اٹھایا ہے کہ کرنل انعام ریٹائرڈ ہیں ان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟
سپریم کورٹ واضح کر چکی سویلین کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا،سویلین کے کورٹ مارشل کیلئے آئینی ترمیم درکار ہوگی۔ معاملے کی سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ کرنل انعام کو رہا کر دیا ہے لیکن وہ زیر تفتیش ہیں، کرنل انعام کو عدالتی حکم پر رہا نہیں کیا گیا،کرنل انعام کی رہائی کی وجوہات الگ ہیں،لاہور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ چکا ہے،جو نکات عدالت نے اٹھائے ہیں ان کے جواب کیلئے وقت درکار ہے، متعلقہ حکام سے ہدایات لیکر عدالتی سوالات کے جواب دوں گا۔ایک موقع پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دئیے کہ کرنل انعام پر فوج نے سنگین الزامات لگائے پھر خود ہی رہا کر دیا، وجوہات کوئی بھی ہوں بات سنگین الزامات کی ہے،کیا سوچے سمجھے بغیر ہی کسی کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے؟آرمی ایکٹ کی دفعہ 94,95 اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 549 پر تیاری کرکے آہیں،سویلین کے کورٹ مارشل سے متعلق نقطے پر بھی معاونت کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کرنل انعام کا کورٹ مارشل سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہوگا،سول نوعیت کے جرم پر کورٹ مارشل فوجی افسران کا بھی نہیں ہو سکتا۔
سول نوعیت کا جرم عام آدمی کرے یا فوجی، ٹرائل فوجداری عدالت کریگی،وفاقی حکومت کی اجازت کے بفیر سول نوعیت کے جرم پر کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا،فوجداری عدالت کو اختیار ہے کہ سول جرم میں جاری کورٹ مارشل کو روک سکے،کمانڈنگ آفیسر نے دلیل کیساتھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کورٹ مارشل ہونا ہے کیس عدالت میں جانا ہے۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی تین ہفتے کا وقت دینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے معاملے کی سماعت تین ہفتے کیلئے ملتوی کر دی ہے۔