ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

“پچھلے تین دن سے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں دہشتگردہوں اور محلے دار مجھے دہشتگرد سمجھ رہے ہوں، سنجیو کمار نامی ہندو نوجوان نے اپنی جان پر کھیل کر انتہاپسند ہندوؤں سے ایک حاملہ مسلمان خاتون سمیت مسلمان ہمسایوں کی جان بچالی سنجیو کمار کی بیٹی کو اس مسلمان خاندان سے محبت کیوں تھی اور کیوں روتی رہی؟رلادینے والی تفصیلات

datetime 28  فروری‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ہندو نوجوان نے اپنی جان کر کھیل کر انتہا پسند ہنددئوں کے ہاتھوں سے مسلمان پڑوسی کی جان بچالی ۔ تفصیلات کے مطابق دہلی میں انتہاپسندوں ہنددئوں کا شر عروج پر ہے ہر طرف آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ انتہاپسند ہنددئوں کا دنگافساد جاری ہے ۔ ان کا پہلا ٹارگٹ مسلمانوں کی جانیں ہیں ،یہ مساجد شہید کر رہے ہیں ، قرآن مجید کے کے اوراق جلائے جارہے ہیں ۔

لوگوں کے دکانیں ، گھر جلائے جارہے ہیں ۔وہیں سنجیو نامی نوجوان نے مثال قائم کرتے ہوئے اپنے مسلمان ہمسائے مجیب الرحمان کی جان بچالی ۔ ہندو نوجوان کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے انسانیت کے ناتے میرا فرض بنتا تھا کہ میں اپنے پڑوسیوں کی حفاظت کروں ۔ سنجیو کا کہنا تھا کہ اپنے مسلمان ہمسائے کے گھر کی ایک خاتون حاملہ تھی میں نے  اسے بلوائیوں کے ہاتھوں سے بچاتے ہوئے موٹرسائیکل پر بٹھا کر ڈسپنسری پہنچا یا ۔ ہندو نوجوان کا کہنا تھا کہ انتہا پسند ہندو میرے پڑوسی مجیب الرحمان اور اس کی فیملی کو مارنے کیلئے دروازہ توڑنے میں مصروف تھے ۔ تب انہوں نے فون کیا کہ ہماری جان کو خطرہ لاحق ہے کیا ہمیں آپ کے گھر میں پناہ مل سکتی ہے جس پر سنجیونے انہیں کہا یہ گھر کیا پورا محلہ آپ کا ہے ۔ جس کے بعد انہیں جا کر اپنے گھر لے آیا ۔ مسلمانوں کی املاک جلنے پر سنجیو کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے بتایا کہ میں پچھلے تین دن سے یہ محسوس کر رہا تھا کہ جیسے میں کوئی دہشت گرد ہوں اور محلے دار مجھے دہشتگرد سمجھے رہے ہوں ۔ اس موقعے پر سنجیو نے اپنی بیٹی سے ملایا جس نے مسلمان فیملی کے واپس جانے کے بعد کھانا نہیں کھایا بلکہ رو رو کر ہلکان ہو گئی ۔ سنجیو کی بیٹی پریانکا کہنا تھا کہ میں اس لیے روئی ہوں کہ جب میں چھوٹی سی تھی تو انہوں نے مجھے اپنی بیٹی سمجھ کر پالا ہے ۔ سنجیو نے بتایا کہ میں صبح آٹھ بجے

دوکان پر چلا جاتاہوں اور میری بیٹی مسلمان فیملی کے گھر رہتی تھی اور وہی انہیں کھلاتے پلاتے اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے رہے ہیں ۔ اس کا مزید کہناتھا کہ مجیب الرحمان بھائی کے بچے نہیں انہوں نے میری اولاد کو اپنی اولاد سمجھ کر پالا ہے اور ایسے موقعے پر اگر میں ان کی کوئی مدد نہ کرتا تو شاید میں زندگی بھر خود کو کبھی معاف نہ کر پاتا لیکن مجھے اپنے پڑوسیوں کے کام آنے پر دل سے خوشی ہوئی ہے ۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…