اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سابق بیورو کریٹ اور نامور کالم نگار شوکت علی شاہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ ایوب خان نے دس برس تک حکمرانی کی۔ یہ دُنیا کا واحد فیلڈمارشل فوجی تھا جو بغیر کوئی جنگ لڑے فیلڈ مارشل بن گیا۔ مقصد یہ تھا کہ فوج زیر اثر رہے۔ تدبیر کُندہ بندہ تقدیر کند خندہ! فوج نے ہی اسے بالآخر رخصت کیا…فضا کتا ، کتا کے نعروں سے گونج اٹھی ایک دن اس کے چھوٹے پوتے نے ایوب کتا مردہ باد کہا تو
تمام حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ۔ اقتدار یحییٰ خان کو سونپ کر رخصت ہو گیا۔جنرل یحییٰ نے تو لٹیا ڈبو دی۔ الیکشن کروانے کی غلطی کر بیٹھا۔ جب مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو شیخ مجیب کو اقتدار منتقل کرنے سے انکار کردیا۔ نتیجتاً ملک دو لخت ہو گیا۔ یحییٰ مرتے دم تک نظربند رہا۔1971ء کی جنگ میں شکست ہندوستانی فوج کے ہاتھوں نہیں ہوئی بلکہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے جب آدھے ملک کی آبادی مخالف ہو جائے تو جنرل نیازی چھوڑ کوئی بھی جرنیل ہوتا نتیجہ یہ ہی نکلتا! نتیجتاً ذوالفقار علی بھٹو نے تین ہیٹ بیک وقت پہن لئے۔ سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ، صدر اور بعد میں وزیر اعظم، 73ء کے آئین میں آرٹیکل 6 کے تحت آئین شکنی کی کڑی سزا رکھی گئی لیکن ایشیا کا عظیم مفکر حکمران تاریخ کا بنیادی سبق بھول گیا۔ قتل کی سزا موت ہے۔ لاکھوں لوگ ارتکاب جرم میں تختہ دار پر چڑھ گئے ہیں تو کیا قتل رُک گئے ہیں؟ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے۔THOSE WHO TAKE UP SWORD SHALL BE PERISHED BY SWORDکیا اس سے جذبہ جہانگیری ماند پڑ گیا ہے۔ مہم جوئی رُک گئی ہے۔ طالع آزمائوں میں کمی آ گئی ہے؟ ایک مغربی مبصر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا (HE GALLOPED TO THE GALLOWS)بے نظیر کو بھی قبل از وقت ہٹا دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے تو دو طرح سے تاریخ رقم کی۔ تین بار وزیر اعظم بننا اور ہردفعہ قبل از وقت فارغ ہونا۔ہو سکتا ہے کچھ زیادتی بھی ہوئی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
’’کُج مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘… یوسف رضا گیلانی، عباسی وغیرہ بھی اسی راہ سے گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ خان صاحب پُھونک پُھونک کر قدم بڑھائیں۔ فہم و فراست سے امور مملکت چلائیں۔ تاریخ پر کڑی نظر رکھیں۔ ضروری نہیں کہ ہر حکمران کا انجام ایک سا ہو