اسلام آباد (این این آئی) پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھانے کی مخالف کر دی۔ پیر کو ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے یا نہیں؟ اس حوالے سے سینیٹ میں بحث شروع ہوگئی۔پہلے مرحلے میں چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل سینیٹ میں پیش کیا گیابل سینیٹر نصیب اللہ بازئی سمیت 6 ممبر کی جانب سے پیش کیا گیا۔
اس موقع پر سینیٹر نصیب اللہ نے کہا کہ یہ بل میں اور میرے ساتھی ایوان میں لائے ہیں، پاکستان میں اداروں، اتھارٹی سربراہ یا دیگر سربراہان کی تنخواہ سات 8 لاکھ روپے ہے تاہم چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ 2 لاکھ سے زیادہ نہیں لہٰذا چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ اور مراعات میں اضافہ کیا جائے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حکومتی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) پاکستان کے سینیٹر بیرسٹر سیف اپنی ہی اتحادی پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید پر برس پڑے۔بیرسٹر سیف نے کہا کہ ہم مزدور آدمی ہیں، ٹی اے ڈی اے بھی نہیں لیتے، تنخواہ بڑھنے سے قومی خزانے پر اتنا بوجھ نہیں پڑتا، جنہوں نے تنخواہ وصول نہیں کرنی وہ نہ کریں بلکہ موجودہ تنخواہ بھی عطیہ کردیں۔پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ فی الحال جو تنخواہ مل رہی ہے سب اسی پر گزارا کریں۔انہوں نے کہاکہ معیشت کے ٹھیک ہونے اور عام آدمی کے حالات بدلنے تک یہ معاملہ التوا میں رکھا جائے۔فیصل جاوید نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنی تنخواہ میں بھی اضافہ نہیں کیا، وزیراعظم اپنے اخراجات میں ریکارڈ کمی لے کر آئے ہیں، جب تک معیشت ٹھیک نہ ہوجائے، عام آدمی کے حالات بدل نہیں جاتے، یہ معاملہ ہولڈ پر رکھیں۔ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر سیف نے سینیٹر فیصل جاوید کو اپنی تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے ایدھی یا شوکت خانم کو عطیہ کرنے کا مشورہ دیدیا اور کہا کہ سینٹ میں سارے امیر نہیں میرے جسے غریب بھی ہیں،اگر تنخواہ بڑھ جاتی ہیں اس کا قومی خزانے پر اتنا اثر نہیں پڑے گا،
اگر کوئی تنخواہ نہیں لینا چاہتا تو نہ لے۔پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے بھی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی مخالفت کر دی ہے۔سینیٹ سے اپنے خطاب میں شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی واضح طور پر اس معاملے مخالفت کرے گی۔انہوں نے ساتھ میں یہ کہا کہ پاکستان میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں خطے میں سب سے کم ہیں تاہم اس وقت بہت غلط پیغام جائے گا اگر پارلیمنٹ خود کو مراعات دے۔ن لیگ کے رہنما مشاہداللہ نے کہا ہے کہ اگر صدر مملکت کو 9 لاکھ روپے تنخواہ دے رہے ہیں تو گروپ ون اور ٹو کے ملازمین کو اس کا 10 فیصد تو دیں۔
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ جس کا داؤ لگ جائے وہ تنخواہ بڑھالے جس کا داؤ نہ لگے وہ روتا پھرے۔انہوں نے کہاکہ تنخواہیں بڑھانے والے امیرلوگ ہی ہوتے ہیں، ملک میں تنخواہیں بڑھانے کے حوالے سے کوئی اصول نہیں بنایا گیا، صدر صاحب کی تنخواہ بڑھ کرتقریباً 9 لاکھ روپے ہوگئی ہے، وزیراعظم صاحب بھی کہتے ہیں ان کا اس تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا،وزیراعظم کا اس تں خواہ میں گزارا نہیں ہوتا توان کی تنخواہ بھی بڑھادیں۔سینیٹرمشاہداللہ نے کہا کہ پرائیوٹ سیکٹر کے لوگوں کو ایک سیکنڈ میں نوکریوں سے نکالا جاتا ہے، 80 لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں،
بے روزگاری کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوا ہے، لوگوں کے گھر گرائے جارہے ہیں اور ان کو متبادل جگہ نہیں دی جاتی۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بعض سینیٹرز ارب پتی ہیں وہ تنخواہ کا ایک ڈیڑھ لاکھ بھی نہیں چھوڑ رہے، 17 گریڈ کے افسرکی تنخواہ بھی ہم سے زیادہ ہے‘۔عثمان کاکڑ نے کہا کہ بعض سرکاری عہدیداروں کی تنخواہ لاکھوں روپے ہے، سواتی صاحب ہمت کریں تو پوری پارلیمنٹ کو پال سکتے ہیں، اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیے، ہم اس بل پر سیاست نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی سیکرٹریز اور خود مختار اداروں کے سربراہوں کی تنخواہ لاکھوں روپے ہے،
ایوان کی اکثریت چاہتی ہے کہ اراکین کی تنخواہیں بڑھیں، وہ دل میں چاہتے ہیں کہ تنخواہ بڑھے تاہم سیاست کرتے ہیں۔عثمان کاکڑ نے کہا کہ ہم ابھی سترہ گریڈ افسرکی تنخواہ بھی نہیں لے رہے ہیں، اس ایوان کو اتنا بھی نیچا نہیں کرنا چاہیے، میں نے زندگی میں ایک روپے کا کاروبار نہیں کیا، زندگی بھر سیاست کی، تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیے، چاہے اسپیکر یا چیئرمین یا ممبران کی ہو۔پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ حقائق کو دیکھا جائے تو نصیب اللہ بازئی جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے، محتسب اعلیٰ کی تنخواہ 14 لاکھ اورسیکرٹری کی 3 لاکھ ہے، ریگولیٹری اتھارٹی سربراہان کی تنخواہ سات 8 لاکھ روپے ہے، یہ سارا نظام ناانصافی پر مشتمل ہے، تاہم حکومت بل کی مخالفت کریگی۔
انہوں نے کہا کہ جو ملک کے معاشی حالات ہیں، لوگ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں تاہم اس بل پر بحث ہونی چاہیے، کوئی بری بات نہیں، پارلیمان کا ہر ممبر امیر نہیں ہے البتہ بلز کو قومی اسمبلی سے شروع ہونا چاہیے، یہ منی بل ہیں جس کی شروعات قومی اسمبلی سے ہوتی ہے، سینیٹ سے نہیں ہونی چاہیے، اس پر بحث ہونی چاہیے کہ چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اور ممبران کی کیا تنخواہ ہے۔اعظم سواتی نے کہاکہ پارلیمنٹ کا ہر رکن امیر نہیں ہے،حکومت کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ آرٹیکل 73،74 ہے۔ انہوں نے کہاکہ بحث ہونی چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکے۔ قائد حزب اختلافسینیٹر راجہ ظفرالحق نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں مہنگائی سے ہر آدمی پریشان ہیں،ملک کی معیشت بھی سب کے سامنے ہے،
میں اپنی پارٹی کی طرف سے واضح کرتا ہوں ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ لوگ جھولی اٹھا اٹھا کر بد دعائیں کررہے ہیں،حکومت پچھلی حکومت کو دوش دے رہی ہے،سب سے پہلے غریب اور سفید پوش لوگوں کی مشکل کم ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ جب تک غریب طبقے کی مشکلات میں کمی نہیں آتی اس وقت تک ہماری ایسی کوئی خواہش نہیں ہو گی۔سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہاکہ اس وقت میں قحط کا ماحول ہے،پینتیس سے چالیس فیصدلوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان کے لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں،پی ٹی آئی کی حکومت تو اب آئی مگر پچھلی حکومتیں بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ارکان پارلیمنٹ کی
تنخواہوں اور ریاست کے دیگر اداروں کی تنخواہوں میں اتنا فرق کیوں؟،رشوت اور کرپشن سے بچنے کیلئے تنخواہ بڑھائی جائے،حکومتی وزرا کی تنخواہیں نہ بھی بڑھے تو کوئی حرج نہیں مگر جو اپوزیشن میں ہیں ان کی تنخواہیں بڑھنی چاہئے تاکہ عزت نفس مجروح نہ ہو سکیں۔سینیٹر سراج الحق نے مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ جناب چیئرمین آپ بھی بہت خوش نظر آرہے ہیں مگر آپ کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہو گا،جب دو افراد پر مشتمل خاندان ہونے کے باوجود وزیر اعظم کاگزارہ نہیں ہورہے تو باقیوں کا کیسے ہو گا،جب سیاست کو عبادت سمجھ کر کی جائے تو عبادت میں تنخواہ نہیں ہوتی،عبادت فی سبیل اللہ کی جاتی ہے،اس کااجراللہ تعالی دنیا اورآخرت دونوں میں دیگا،میں نے جب وزیر خزانہ پختوخوا تھا تو تنخواہوں میں اضافے کا نہ ماڈل متعارف کرایا،
چوکیدار کی تنخواہ میں بائیس فیصد اور چیف سیکرٹری کی تنخواہ میں ایک فیصد اضافہ کیا،اس کے بعد بیوروکریسی نے ہڑتال کردی،صدر،وزیراعظم اور وزراء کو ماڈل بننا چاہئے۔سینیٹر ستارہ ایاز نے کہاکہ تنخواہیں بڑھانے کا کہہ کر کوئی جرم نہیں کیا،تنخواہوں کے حوالے سے پارلیمنٹرین اور دیگر اداروں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔قائد ایون سید شبلی فراز نے کہاکہ اسی فیصد ٹائم پارلیمانی لیڈرز لے لیتے ہیں،اس لئے پہلی لائن والے آئے باقی نہ آئے،جب بولنے کیلئے وقت نہیں دیا جارہا تو باقی سینیٹرز کو بلایا ہی نہ جائے۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ تنخواہیں بڑھانے کی شدید مخالفت کرتا ہوں،خیبر پختونخوا میں بچے غذائی قلت کا شکار ہے،لوگ خودکشیوں کو ترجیح دے رہے ہیں،تنخواہیں بڑھانے کی بجائے جن کی تنخواہ بڑھی ہے اس کو کم کیا جائے۔سینیٹر ڈاکٹر مہر تاج روغانی نے کہاکہ لفٹ اور گیٹ پر موجود لوگوں کی تنخواہیں بڑھائی جائیں،
دل سے خوش باہر سے دکھاوا،دلوں کا حال آپ کیسے جانتے ہیں،بیرسٹر سیف میرا سٹوڈنٹ تھا،پتہ نہیں مجھ سے پڑھانے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو گی،اس نے میری مخالفت کیوں کی۔سینیٹر نعمان وزیر نے کہاکہ انکم ٹیکس ریٹرنز میں تین لاکھ سے کم والے سینیٹرز کو تنخواہ دی جائے۔وفاقی وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ نے کہاکہ وزیر اعظم کی تنخواہ میں اضافے بارے خبریں چھپی جبکہ وزیر اعظم کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔سینیٹر سیمی ایزدی نے کہاکہ سینیٹرز کی تنخواہ سپریم کورٹ کے ججز کے برابر ہونی چاہئے۔سینیٹر کہدا بابر نے کہاکہ جب ایک سینیٹر اپنا تنخواہ نہیں بڑھا سکتا تو پھر دیگر مسائل کیسے حل کر سکتے ہیں۔سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ تنخواہ بڑے یا نہ بڑھے وہ ٹیکہ کہیں سے مجھے ملے جس سے روپے ڈالر کی شکل میں مل جائے۔ انہوں نے کہاکہ وہ ٹیکہ نہیں تو ایسے دوست ہی لا دیجئے جو ہمیں اپنے جہازوں میں پھرائے۔ انہوں نے کہاکہ جب دوست وزیر اعظم کے اخراجات اٹھاتے ہیں تو وزیراعظم دوست کے اخراجات اٹھاتے ہیں،وزیراعظم جب دوستوں کے اخراجات اٹھاتے ہیں تو پوری قوم کو ان دوستوں کے اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔سینیٹر میر کبیر احمد شاہی نے کہاکہ پہلے ہم مزدور کی تنخواہ میں اضافے کی باتیں کرتے تھے،پہلی دفعہ اپنی تنخواہوں میں اضافے کی باتیں کررہے ہیں۔